اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر۳۵

یہ  حیات  بعد الموت اور قیام ِ حشر کی عقلی اور اخلاقی ضرورت ہے۔ دنیا میں  جب سے انسان پیدا ہوا ہے، حقیقت   کے بارےمیں  بے شمار اختلاف رونما ہوئے ہیں۔ انہی اختلافات کی بنا پر نسلوں اور قوموں اور خاندانوں میں پھوٹ پڑی ہے۔ انہی کی بنا پر مختلف نظریات رکھنے والوں نے اپنے الگ مذہب ، الگ معاشرے ، الگ تمدن بنائے یا اختیار کیے ہیں۔ ایک ایک نظریے کی حمایت اور وکالت میں ہزاروں لاکھوں آدمیوں نے مختلف زمانوں میں جان ، مال ، آبرو، ہر چیز کی بازی لگا دی ہے۔ اور بے شمار مواقع پر ان مختلف نظریات کے حامیوں میں ایسی سخت کشاکش ہوئی ہے کہ ایک نے دوسرے کو بالکل مٹا دینے کی کوشش کی ہے، اور مٹنے والے نے مٹتے مٹتے  بھی اپنا نقطۂ نظر نہیں چھوڑا ہے ۔ عقل چاہتی ہے کہ ایسے اہم اور سنجیدہ اختلافات کے متعلق کبھی توصحیح اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ  فی الواقع ان کے اندر حق کیا تھا اور  باطل کیا، راستی پر کون تھا، اور ناراستی پر کون۔ اِس دنیا میں تو کوئی امکان اس پردے کے اُٹھنے کا نظر نہیں آتا ۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہے کہ اس میں حقیقت پر سے پردہ اُٹھ نہیں سکتا۔ لہٰذا لا محالہ عقل کے اِس تقاضے کو پورا کرنے کے لیے ایک دوسرا ہی عالم درکار ہے۔
اور یہ صرف عقل کا تقاضا ہی نہیں ہے  بلکہ اخلاق کا تقاضا بھی ہے۔ کیونکہ ان اختلافات اور ان کشمکشوں میں بہت سے فرقوں نے حصّہ لیا ہے۔ کسی نے ظلم کیا ہے اور کسی نے سہا ہے۔ کسی نے قربانیاں کی ہیں اور کسی نے ان قربانیوں کو وصول کیا ہے۔ ہر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق ایک اخلاقی فلسفہ اور ایک اخلاقی رویہ اختیار کیا ہے اور اس سے اربوں اور کھربوں انسانوں کی زندگیاں بُرے یا بھلے طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ آخر کوئی وقت تو  ہونا چاہیے جبکہ ان سب کا اخلاقی نتیجہ صِلے یا سزا کی شکل میں ظاہر ہو۔ اس دنیا کا نظام اگر صحیح اور مکمل اخلاقی نتائج کے ظہور کا متحمل نہیں ہے تو ایک دوسری دنیا ہونی چاہیے جہاں یہ نتائج ظاہر ہو سکیں۔