اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر۵۳(الف)۔

یعنی یہ منظر ہر سال تمہاری آنکھوں کے سامنے گزرتا ہے کہ زمین بالکل چٹیل  میدان پڑی  ہوئی ہے ، زندگی کے کوئی آثار موجود نہیں، نہ گھاس پھونس ہے، نہ بیل بوٹے، نہ پھُول پتّی ، اور نہ کسی قسم کے حشرات الارض ۔ اتنے میں بارش کا موسم آگیا اور ایک دو چھینٹے پڑے ہی اُسی زمین سے زندگی کے چشمے اُبلنے شروع ہو گئے۔ زمین کی تہوں میں دبی ہوئی بے شمار جڑیں یکایک جی اٹھیں اور ہر ایک کے اندر وسے وہی نباتات پھر برآمد ہوگئی جو پچھلی برسات میں پیدا ہونے کے بعد مر چکی تھی ۔ بے شمار حشرات الارض جن کا نام و نشان تک گرمی کے زمانے میں باقی نہ رہا تھا ، یکایک پھر اُسی شان سے نمودار ہو گئے جیسے پچھلی برسات میں دیکھے گئے تھے۔ یہ سب کچھ اپنی زندگی میں بار بار تم دیکھتے رہتے ہو ، اورپھر بھی تمہیں نبی کی زبان سے یہ سُن کر حیرت ہوتی ہے کہ اللہ تمام انسانوں کو مرنے کے بعد   دوبارہ زندہ کرے گا۔ اس حیرت کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ تمہارا مشاہدہ بے عقل حیوانوں کا سا مشاہدہ ہے۔ تم کائنات کے کرشموں کو تو دیکھتے ہو، مگر اُن کے پیچھے خالق کی قدرت اور حکمت کے نشانات نہیں دیکھتے۔ ورنہ یہ ممکن نہ تھا کہ نبی کا بیان سُن کر تمہارا دل نہ پکار اُٹھتا کہ فی الواقع یہ نشانیاں اُس کے بیان کی تائید کر رہی ہیں۔