اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر٦۲

زمانہ ٔ حال میں اس آیت سے جو عجیب و غریب معنی نکالے گئے ہیں وہ اس امر کی بدترین مثال ہیں کہ قرآن کی آیات کو ان کے سیاق و سباق سے الگ کر کے ایک ایک آیت کے الگ معنی لینے سے کیسی کیسی لا طائل تاویلوں کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ لوگوں نے اس آیت کو اسلام کے فلسفہ ٔ معیشت کی اصل اور قانون معیشت کی ایک اہم دفعہ ٹھیرایا ہے۔ ان کے نزدیک آیت کا منشا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے رزق میں فضیلت عطا کی ہو انہیں اپنا رزق اپنے نوکروں اور غلاموں کی طرف ضرور لوٹا دینا چاہیے ، اگر نہ لوٹائیں گے تو اللہ کی نعمت کے منکر قرار پائیں گے۔ حالانکہ اس پورے سلسلۂ کلام میں قانونِ معیشت  کے بیان کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے۔ اوپر سے تمام تقریر شرک کے ابطال اور توحید کے اثبات میں ہوتی چلی رہی ہے اور آگے بھی  مسلسل یہی مضمون چل رہا ہے۔ اس گفتگو کے بیچ میں یکایک قانون معیشت کی ایک دفعہ بیان کر دینے کے بعد آخر  کونسا تُک ہے ؟ آیت کو اس  کے سیاق و سباق میں رکھ کر دیکھا جا ئے تو صا ف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اسکے بالکل برعکس مضمون بیا ن ہو رہا ہے ۔ یہاں استدلال یہ کیا گیا ہے کہ تم خود اپنے مال میں اپنے غلاموں اور نوکروں کو جب برابر کا درجہ نہیں دیتے۔۔۔۔۔۔ حالانکہ یہ مال خدا کا دیا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔ تو آخر کس طرح یہ بات تم صحیح سمجھتے ہو کہ جو احسانات اللہ نے تم  پر کیے ہیں ان کے شکریے میں اللہ کے ساتھ اس کے بے اختیار غلاموں کو بھی شریک کر لو اور اپنی جگہ یہ سمجھ بیٹھو کہ اختیارات اور حقوق میں اللہ کے یہ غلام بھی اس کے ساتھ برابر کے حصہ دار ہیں؟
ٹھیک یہی استدلال ، اسی مضمون سے سورۂ  روم، آیت نمبر ۲۸ میں کیا گیا ہے ۔ وہاں اس کے الفاظ یہ ہیں: ضَرَبَ لَکُمْ مَّثَلًا مِّنْ اَنْفُسِکُمْ ھَلْ لَّکُمْ مِّنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ شُرَکَآ ءَ فِیْ مَا رَزَقْنٰکُمْ فَاَنْتُمْ فِیْہِ سَوَ آ ءٌ تَخَا فُوْ نَھُمْ کَخِیْفَتِکُمْ اَنْفُسَکُمْ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْقِلُونَ۔ اللہ تمہارے  سامنے ایک  مثال خود تمہاری اپنی ذات سے پیش کرتا ہے ۔ کیا تمہارے اُس رزق میں   جو ہم  نے تمہیں دے رکھا ہے تمہارےغلام تمہارے شریک ہیں حتیٰ کہ تم اور وہ اس میں برابر ہوں؟ اور تم ان سے اسی طرح ڈرتے ہو جس طرح اپنے برابر والوں سے ڈرا کرتے ہو؟ اس طرح اللہ کھول کھول کر نشانیاں پیش کرتا ہے ان لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں“۔
دونوں آیتوں کا تقابل کر نے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ دونوں میں ایک ہی مقصد کے لیے ایک ہی مثال سے استدلال کیا گیا ہے۔ اور ان میں سے ہر ایک دوسری کی تفسیر  کر رہی ہے۔
شاید لوگوں کو غلط فہمی اَفَبِنِعْمَۃِ اللہِ یَجْحَدُوْنَ کے الفاظ سے ہوئی ہے۔ انہوں نے تمثیل کے بعد متصلًا یہ فقرہ دیکھ کر خیا  ل کیا کہ ہو نہ ہو اس کا مطلب یہی ہو گا کہ اپنے زیر دستوں کی طرف رزق  نہ پھیر دینا  ہی اللہ کی نعمت کا انکا ر ہے حالانکہ جو شخص قرآن میں کچھ بھی نظر رکھتا ہے و ہ اس بات کو جانتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکریہ غیراللہ کو ادا کرنا اس کتاب کی نگاہ میں اللہ کی نعمتوں کا انکار ہے۔ یہ مضمون  اس کثرت سے قرآن میں دُہرایا گیا ہے کہ تلاوت و تدبُّر کی عادت رکھنے والوں کو تو اس میں اشتباہ پیش
نہیں آسکتا، البتہ انڈکسوں کی مدد سے اپنے مطلب کی آیات نکال کر مضامین تیار کرنے والے حضرات اس سے ناواقف ہو سکتے ہیں۔
 نعمتِ الہٰی کے انکار کا یہ مفہوم سمجھ لینے کے بعد اس فقرے کا یہ مطلب صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ جب یہ لوگ مالک اور مملوک کا فرق خوب جانتے ہیں ، اور خود اپنی زندگی میں ہر وقت اس فرق کو ملحوظ رکھتے ہیں ، تو کیا پھر ایک اللہ ہی کے معاملہ میں انہیں اس بات پر اصرار ہے کہ اُس کے بندوں کو اس کا شریک و  وہیم ٹھیرائیں اور جو نعمتیں انہوں نے اُس سے پائی ہیں اُن کا شکریہ  اُس کے بندوں کو ادا کریں؟