اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر٦۷

سوال اور الحمد للہ کے درمیان ایک لطیف خلا ہے جسے بھرنے کے لیے خود لفظ الحمد للہ ہی میں بلیغ اشارہ موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ نبیؐ کی زبان سے یہ سوال سُن کر مشرکین کے لیے اس کا  یہ جواب دینا تو کسی طرح ممکن نہ تھا کہ دونوں برابر ہیں۔ لا محالہ  اس کے جواب میں کسی نے صاف صاف اقرار کیا ہو گا  کہ واقعی  دونوں برابر نہیں ہیں، اور کسی نے اس اندیشے سے خاموشی اختیار کر لی ہوگی کہ اقراری جواب دینے کی صورت میں اُس کے منطقی نتیجے کا بھی اقرار کرنا ہو گا اور اس سے خود بخود اُن کے شرک کا ابطال ہو جائے گا۔ لہٰذا نبی نے دونوں کا جواب پا کر فرمایا الحمد للہ ۔ اقرار کرنے والوں کے اقرار پر بھی الحمد للہ ، اور خاموش رہ جانے والوں کی خاموشی پر بھی الحمد للہ ۔ پہلی صورت میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ”خدا کا شکر ہے، اتنی بات تو تمہاری سمجھ میں آئی“۔ دوسری صورت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ”خاموش ہوگئے؟ الحمد للہ ۔ اپنی ساری ہٹ دھرمیوں کے باوجود دونوں کو برابر کہہ دینے کی ہمت تم بھی نہ کر سکے“۔