اس رکوع کو چھاپیں

سورة النحل حاشیہ نمبر۹

توحید اور رحمت و ربوبیت کے دلائل پیش کرتے ہوئے یہاں اشارۃً نبوک  کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے ۔ اس دلیل کا مختصر بیان یہ ہے:
دنیا میں انسان کی فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملًا  موجود ہیں۔ ظاہر ہے کہ  یہ سارے راستے بیک وقت تو حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی تو ایک ہی ہے اور صحیح نظریۂ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے  جو اُس سچائی کے مطابق ہو ۔ اور عمل  کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریہ ٔ حیات پر مبنی ہو۔
 اس صحیح نظریے اور صحیح راہِ عمل سے واقف ہونا انسان کی سب سے بڑی ضرورت ہے ، بلکہ اصل بنیادی ضرورت یہی ہے۔ کیونکہ دوسری تمام چیزیں  تو انسان کی صرف اُن ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک اونچے درجے کا جانور ہونے کی حیثِت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں۔ مگر  یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہو گئی۔
اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سرو سامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک  ضرورت کو پورا کرنے کا اِتنی دقیقہ سنجی کے ساتھ اِتنے بڑے پیمانے پر انتظام کیا، کیا اس سے تم  یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اِس سب سے بڑی اور اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست  نہ کیا ہوگا؟
یہی بندوبست تو ہے جو نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتاؤ کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کونسا انتظام کیا ہے؟ اِس کے جواب میں تم نہ یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے، کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بے شمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہِ راست کی  صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے۔ اور نہ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے، کیونکہ خدا کے ساتھ اِس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش اور تمہارے نشونما کا اِتنا مفصل اور مکمل انتظام کرے، مگر انسان ہونے کی حیثیت سے  تم کو یونہی تاریکیوں میں بھٹکنے اور ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الرحمٰن، حاشیہ نمبر ۲۳