اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١۰۰

یعنی یا تو مجھے خود اقتدار عطا کر، یا کسی حکومت کو میرا مدد گار بنا دے تا کہ اس کی حماقت سے میں دنیا کے اس بگاڑ کو درست کر سکوں ، فواحش اور معاصی کے اس سیلاب کو روک سکوں ، اور تیرے قانونِ عدل کو جاری کر سکوں۔ یہی تفسیر ہے اس آیت کی جو حسن بصری  اور قتادہ نے کی ہے، اور اسی کو ابن جریر اور ابن کثیر  جیسے جلیل القدر مفسرین نے اختیا ر کیا ہے، اور اسی کی تائید نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث کرتی ہے کہ اِنَّ اللہ َ لَیَزَعُ بِالسُّلطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالقُرْاٰنِ،یعنی”اللہ تعالیٰ حکومت کی طاقت سے اُن چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے نہیں کرتا“۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ و تذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لیے سیاسی طاقت بھی درکار ہے ۔ پھر جبکہ یہ دعا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو خود سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو ا کہ اقامتِ دین اور نفاذِ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لیے حکومت چاہنا اور اس کے  حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب و مندوب ہے او ر وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پر ستی  یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں۔ دنیا پرستی  اگر ہے تو یہ کہ کوئی شخص اپنے لیے حکومت کا طالب ہو ۔ رہا خدا ے دین کے لیے حکومت کا طالب ہونا تو یہ دنیا پرستی  نہیں بلکہ خدا پرستی ہی کا عین تقاضا ہے ۔ اگر جہاد کے لے تلوار کا طالب ہو نا گناہ نہیں ہے تو  اجرائے احکام شریعت کے لیے سیاسی اقتدار کا طالب ہونا آخر کیسے گناہ ہو جائے گا؟