!عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روحِ حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس کی حقیقت کیا ہے، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے، اس لیے کہ یہ معنی صرف اُس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفر د جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو رُوح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین ِ قرآن کے ظالم اور کافرِ نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، اور جہاں بعد آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہٰی ہونے پر استدلال کیاگیا ہے، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے؟ |