اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١۰۳

!عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہاں روح سے مراد جان ہے، یعنی لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روحِ حیات کے متعلق پوچھا تھا کہ اس  کی حقیقت کیا ہے، اور اس کا جواب یہ دیا گیا کہ وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ معنی تسلیم کرنے میں سخت تامل ہے، اس لیے کہ  یہ معنی صرف اُس صورت میں لیے جا سکتے ہیں جبکہ  سیاق و سباق کو نظر انداز کر دیا جائے اور سلسلہ کلام سے بالکل الگ کر کے اس آیت کو ایک منفر د جملے کی حیثیت سے لے لیا جائے۔ ورنہ اگر سلسلہ کلام میں رکھ کر دیکھا جائے تو رُوح کو جان کے معنی میں لینے سے عبارت میں سخت بے ربطی محسوس ہوتی ہے اور اس امر کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ جہاں پہلے تین آیتوں میں قرآن کے نسخہ شفا ہونے اور منکرین ِ قرآن کے ظالم اور کافرِ نعمت ہونے کا ذکر کیا گیا ہے، اور جہاں بعد آیتوں میں پھر قرآن کے کلام الہٰی ہونے پر استدلال کیاگیا ہے، وہاں آخر کس مناسبت سے یہ مضمون آگیا کہ جانداروں میں جان خدا کے حکم سے آتی ہے؟
                ربطِ عبارت کو نگا ہ میں رکھ کر دیکھا جائے تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہاں روح سے مراد”وحی“یا وحی لانے والا فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔ مشرکین کا سوال دراصل یہ تھا کہ قرآن تم کہاں  سے لاتے ہو؟ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ؐ ،تم سے یہ لوگ روح، یعنی ماخذِ قرآن ، یا ذریعہ حصولِ قرآن کے بارے میں  دریافت کرتے ہیں۔ انہیں بتا دو کہ یہ روح میرے رب کے حکم سے آتی ہے، مگر تم لوگوں نے علم سے اتنا کمزور بہرہ پایا ہے کہ تم انسانی ساخت کے کلام اور وحی ربانی کے ذریعہ سے نازل ہونے والے کلام کا فرق نہیں سمجھتے اور اس کلام پر یہ شہبہ کرتے ہو کہ اسے کوئی انسان گھڑ رہا ہے۔
                یہ تفسیر صرف اس لحاظ سے قابل ترجیح ہے کہ تقریر ماسبق اور تقریر مابعد کے ساتھ آیت کا ربط اسی تفسیر کا متقاضی ہے ، بلکہ خودقرآن مجید میں بھی دوسرے مقامات پر یہ  مضمون قریب قریب انہی الفاظ میں بیان کیا گیاہے۔ چنانچہ سورہ مومن میں ارشاد ہوا ہےیُلْقِی الرُّوْحَ مِنْ اَمْرِہٖ عَلیٰ مَنْ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ لِیُنْذِ رَ یَوْمَ التَّلَاقِ  (آیت ١۵)۔ ”وہ اپنے حکم سے اپنے جس بندے کو چاہتا ہے روح نازل کرتا ہے تا کہ وہ لوگوں کے اکٹھے ہونے کے دن سے آگاہ کرے“۔ اور سورہ شوریٰ میں فرمایا وَکَذٰلِکَ اَوْ حَینَآ اِلَیْکَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا کُنْتَ تَدْرِیْ مَا الْکِتٰبُ وَلَا الاِْیْمَانُ  ( آیت ۵۲)۔”اور اسی طرح ہم نے تیری طرف ایک روح اپنے حکم سے بھیجی۔ تو نہ جانتا تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور ایمان کیا ہے“۔
                سلف میں سے ابن عباس، قتادہ اور حسن بصری رحمہم اللہ نے بھی یہی تفسیر اختیار کی ہے۔ ابن جریر نے اس قول کو قتادہ کے حوالہ سے ابن عباس ؓ  کی طرف منسوب کیا ہے، مگر یہ عجیب بات لکھی ہے کہ ابن عباس اس خیال کو چھپا کر بیان کرتے تھے۔ اور صاحبِ روح المعانی حسن اور قتادہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ ”روح سے مراد جبرائیل ہیں اور سوال در اصل یہ تھا کہ وہ کیسے نازل ہوتے ہیں اور کس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر وحی کا القاء ہوتا ہے“۔