اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١١۴

یہ وہی خطاب ہے جو مشرکین مکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے۔ اسی سورت کی آیت ۴۷ میں ان کا یہ قول گزر چکا ہے کہ اِنْ تَتَّبِعُوْنَ اِلَّا رَجُلاً مَّسحُوراً۔ (تم تو ایک سحر زدہ آدمی کے پیچھے چلے جارہے ہو)۔ اب ان کو بتا یا جا رہا ہے کہ ٹھیک اسی خطاب سے فرعون نے موسٰی علیہ السلام کو نوازا تھا۔
                اسی مقام پر ایک ضمنی مسئلہ اور بھی ہے جس کی طرف ہم اشارہ کر دینا ضروری سمجھتے ہیں۔ زمانہ حال میں منکرینِ حدیث نے احادیث پر جو اعتراضات کیے ہیں ان میں سے ایک اعتراض یہ ہے کہ حدیث کی رو سے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جادہ اثر ہوگیا تھا، حالانکہ قرآن کی رو سے کفار کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمی ہیں۔ منکرین حدیث کہتے ہیں کہ  اس طرح راویانِ حدیث نے قرآن کی تکذیب اور کفار مکہ کی تصدیق کی ہے۔ لیکن یہاں دیکھیے کہ بعینہٖ قرآن کی رُو سے حضرت موسٰی پر بھی فرعون کا یہ  جھوٹا الزام تھا کہ آپ ایک سحر زدہ آدمیں ہیں، اور پھر قرآن خود ہی سورہ طٰہٰ میں کہتا ہے کہ فَاِذَا حِبَا لُھُمْ وَعِصِیُّھُمْ یُخَیَّل اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِ ھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی ۵   فَاَوجَسَ فِیْ نَفْسِہٖ خِیْفَةً مُّوْسٰی ۔ یعنی”جب جادوگر وں نے اپنے انچھر پھینکے تو یکایک ان کے جادو سے موسٰی کو یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کی لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں ، پس موسٰی اپنے دل میں ڈر سا گیا“۔ کیا یہ الفاظ صریح طور  پر دلالت نہیں کر رہے ہیں کہ حضرت موسٰی اس وقت جادو سے متاثر ہو گئے تھے؟ اور کیا اس کے متعلق بھی منکرین ِ حدیث یہ کہنے کے لیے تیار ہیں کہ یہاں قرآن نے خود اپنی تکذیب اور فرعون کے جھوٹے الزام کی تصدیق کی ہے؟
                دراصل اس طرح کے اعتراضات اُٹھانے والوں کو یہ معلوم نہیں ہے کہ کفار مکہ اور فرعون کس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت موسٰی کو ”مسحور“کہتے تھے۔ ان کا مطلب  یہ تھا کہ کسی دشمن نے جادو کر کے ان کو دیوا نہ بنا دیا ہے اور اسی دیوانگی کے زیر اثرات یہ نبوت کا دعویٰ کرتے اور ایک نرالا پیغام سناتے ہیں۔ قرآن ان کے اسی الزام کو جھوٹا قرار دیتا ہے ۔ رہا  وقتی طور پر کسی شخص کے جسم یا کسی حاسئہ جسم کا جادو سے متاثر ہوجانا تو یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کو پتھر مارنے سے چوٹ لگ جائے، اس چیز کا نہ کفار نے الزام لگا یا تھا ، نہ قرآن نے اس کی تردید کی، اور نہ اس طرح کے کسی وقتی تاثر سے نبی کے منصب نبوت پر حرف آنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے ۔ منصبِ نبوت میں اگر قادح ہو سکتی ہے  تو یہ بات کہ نبی کے قوائے عقلی و ذہنی جادو سے مغلوب ہوجائیں، حتٰی کہ اس کا کام اور کلام سب جادو ہی کے زیر اثر ہونے لگے۔ مخالفینِ حق حضرت موسٰی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر یہی الزام لگا تے تھے اور اسی کی تردید قرآن نے کی ہے۔