اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١١۵

 یہ بات حضرت موسٰی نے اس لیے فرمائی کہ کسی ملک پرقحط آجانا، یا لاکھوں مربع میل زمین پر پھیلے ہوئے علاقے میں مینڈکوں کا ایک بلا کی طرح نکلنا ، یا تمام ملک کے غلے کے گوداموں میں گھن لگ جانا، اور ایسے ہی دوسرے عام مصائب کسی جادو گر کے جادو، یا کسی انسانی طاقت  کے کرتب سے رونما نہیں ہو سکتے۔ پھر جبکہ ہر بلا کے نزول سے پہلے حضرت موسٰی فرعون کو نوٹس دے دیتے تھے کہ اگر تو اپنی ہٹ سے باز نہ آیا تو یہ بلا تیری سلطنت پر مسلط کی جائے گی ، اور ٹھیک ان کے بیان کے مطابق وہی بلا پوری سلطنت پر نازل پوجاتی تھی، تو اس صورت میں صرف ایک دیوانہ یا ایک سخت ہٹ دھرم آدمی ہی یہ کہہ سکتا تھا کہ ان بلاؤں کا نزول ربّ السٰموات والارض کے سوا کسی اور کی کارستانی کا نتیجہ ہے۔