اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر١۳

مطلب یہ ہے کہ اختلافات سے گھبرا کر یکسانی ویک رنگی کے لیے بے چین نہ ہو۔ اس دنیا کا تو سارا کار خانہ ہی اختلاف اور امتیاز اور تنوع کی بدولت چل رہا ہے۔ مثال کے طور پر تمہارے سامنے نمایاں ترین نشانیاں یہ رات اور دن ہیں جو روز تم پر طاری ہوتے رہتے ہیں۔ دیکھوں کہ ان کے اختلافات میں کتنی عظیم الشان مصلحتیں موجود ہیں۔ اگر تم پر دائماً ایک ہی حالت طاری رہتی تو کیا یہ ہنگامہ وجود چل سکتا تھا؟ پس جس طرح تم دیکھ رہےہو کہ عالم طبیعیات میں فرق و اختلاف اور امتیاز کے ساتھ بے شمار مصلحتیں وابستہ ہیں، اسی طرح انسانی مزاجوں اور خیالات اور رحجانات میں بھی جو فرق و امتیاز پایا جاتا ہے وہ بڑی مصلحتوں کا حامل ہے۔ خیر اس میں نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی فوق الفطری مداخلت سےاس کو مٹا کر سب انسانوں کو جبراً نیک اور مومن بنا دے، یا کافروں اور فاسقوں کو ہلاک کر کے دنیا میں صرف اہل ایما ن و طاعت ہی کو باقی رکھا کرے۔ اس کی خواہش کر نا تو اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ خواہش کرنا کہ صرف دن ہی دن رہا کرے،رات کی تاریکی سرے سے کبھی طاری ہی نہ ہو۔ البتہ خیر جس چیز میں ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہدایت کی روشنی جن لوگوں کے پاس ہے وہ اسے لے کر ضلالت کی تاریکی دور کرنے کے لیے مسلسل سعی کرتے رہیں، اور جب رات کی طرح کوئی تاریکی کا دور آئے تو وہ سورج کی طرح اُس کا پیچھا  کریں، یہاں تک کہ روزِ روشن نمودار ہو جائے۔