اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۲۳

یعنی دنیا ہی میں یہ فرق نمایاں ہوجاتا ہے کہ آخرت کے طلبگار دنیا پرست لوگوں پر فضیلت رکھتے ہیں۔ یہ فضیلت اس اعتبار سے نہیں ہے کہ ان کے کھانے اور لباس اور مکان اور سواریاں اور تمدن و تہذیب کے ٹھاٹھ اُن سے کچھ بڑھ کر ہیں۔ بلکہ اس اعتبار  سے ہے کہ یہ جو کچھ بھی پاتے ہیں صداقت ، دیانت اور امانت کےساتھ پاتے ہیں، اور وہ جو کچھ پا رہے ہیں ظلم سے ، بے ایمانیوں سے، اور طرح طرح کی حرام خوریوں سے پا رہے ہیں ۔ پھر ان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اعتدال کے ساتھ خرچ ہوتا ہے، اس میں سے حق داروں کے  حقوق ادا ہوتے ہیں، اس میں سائل اور محروم کا حصہ بھی نکلتا ہے، اور اس میں سے خدا کی خوشنودی کے لیے دوسرے نیک کاموں پر بھی مال صرف کیاجاتا ہے۔ اس کے بر عکس دنیا پرستوں کو جو کچھ ملتا ہے وہ بیش تر عیاشیوں اور حرام کاریوں اور طرح طرح کے فساد انگیز اور فتنہ خیز کاموں میں پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اسی طرح تمام حیثیتوں سے  آخرت کے طلب گار کی زندگی  خدا ترسی اور پا کیزگی اخلاق کا ایسا نمونہ ہوتی ہے جو پیوند لگے ہوئے کپڑوں اور خس کی جھونپڑیوں میں بھی اس قدردرخشاں نظر آتا ہے کہ دنیا پرست کی زندگی اس کے مقابلے میں ہر چشم بینا کو تاریک نظرآتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے جبار بادشاہوں اور دولت مند امیروں کے لیے بھی ان کے ہم جنس انسانوں کے دلوں میں کوئی سچی عزت اور محبت اور عقیدت کبھی پیدا نہ ہوئی اور اس کے بر عکس فاقہ کش اور بوریا نشین اتقیا کی فضیلت کو خود دنیا پرست لوگ بھی ماننے پر مجبور ہو گئے۔ یہ کھلی کھلی علامتیں اس حقیقت کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہیں کہ آخرت کی پائدار مستقل کامیابیاں ان دونوں گروہوں میں سے کس کے حصے میں آنے والی ہیں۔