اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۳۳

قتلِ نفس سے مراد صرف دوسرے انسان کا قتل ہی نہیں ہے، بلکہ خود اپنے آپ کو قتل کرنا بھی ہے۔ اس لیے کہ نفس،جس کو اللہ نے ذی حرمت ٹھیرایا ہے ، اس کی تعریف میں دوسرے نفوس کی طرح انسان کا اپنا نفس بھی داخل ہے۔ لہٰذا جتنا بڑا جرم اور گناہ قتلِ انسان ہے، اتنا ہی بڑا جرم اور گناہ خود کشی بھی ہے۔ آدمی کو بڑی غلط فہمیوں میں سے ایک یہ ہے کہ  وہ اپنےآپ کو اپنی جان کا مالک، اور اپنی اس ملکیت کو با ختیارِ خود تلف کر دینے کا مجاز سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ جان اللہ کی ملکیت ہے، اور ہم اس کے اتلاف تو درکنار، اس کے کسی بے جا استعمال کے بھی مجاز نہیں ہیں۔ دنیا کی اس امتحان گاہ میں اللہ تعالیٰ جس طرح بھی  ہمارا امتحان لے، اسی طرح ہمیں آخر وقت تک امتحان دیتے رہنا چاہیے، خواہ حالاتِ امتحان اچھے ہوں یا بُرے۔ اللہ کے دیے ہوئے وقت کو قصداً ختم کر کے امتحان گاہ سے بھاگ نکلنے کی وشش بجائے خود غلط ہے، کجا کہ یہ فرار بھی ایک ایسے جرمِ عظیم کے ذریعہ سے کیا جائے جسے اللہ نے صریح الفاظ میں حرام قرار دیا ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ آدمی دنیا کی چھوٹی چھوٹی تکلیفوں اور ذلتوں اور رسوائیوں سے بچ کر عظیم تر اور ابدی تکلیف و رسوائی کی طرف بھاگتا ہے۔