یعنی وہ خود مالک عرش بننے کی کوشش کرتے۔ اس لیے کہ چند ہستیوں کا خدائی میں شریک ہونا دو حال سے خالی نہیں ہو سکتا ۔ یا تو وہ سب اپنی اپنی جگہ مستقل خدا ہوں۔ یا ان میں سے ایک اصل خدا ہو، اور باقی اس کے بندے ہوں جنہیں اس نے کچھ خدا ئی اختیارات دے رکھے ہوں۔ پہلی صورت میں یہ کسی طرح ممکن نہ تھا کہ یہ سب آزاد خود مختار خدا ہمیشہ، ہر معاملے میں،ایک دوسرے کے ارداے سے موافقت کر کے اس اتھاہ کائنات کے نظم کو اتنی مکمل ہم آہنگی، یکسانیت اور تناسب و توازن کے ساتھ چلا سکتے۔ نا گزیر تھا کہ اُن کے منصوبوں اور ارادوں میں قدم قدم پر تصادم ہوتا اور ہر ایک اپنی خدائی دوسرے خداؤں کی موافقت کے بغیر چلتی نہ دیکھ کر یہ کوشش کرتا کہ وہ تنہا ساری کائنات کا مالک بن جائے۔ رہی دوسری صورت، تو بندے کا ظرف خدائی اختیارات تو درکنار خدائی کے ذرا سے وہم اور شائبے تک کا تحمل نہیں کر سکتا ۔ اگر کہیں کسی مخلوق کی طرف ذرا سی خدا ئی بھی منتقل کر دی جاتی تو وہ پھٹ پڑتا، چند لمحوں کے لیے بھی بندہ بن کر رہنے پر راضی نہ ہوتا، اور فوراً ہی خدا وند عالم بن جانے کی فکر شروع کردیتا۔ |