اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۵١

یعنی آخرت پر ایمان نہ لانے کا یہ قدرتی نتیجہ ہے کہ آدمی  کے دل پر فل چڑھ جائیں اور اس کے کان اُس دعوت کے لیے بند ہو جائیں جو قرآن پیش کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی تو دعوت ہی اس بنیاد پر ہے  کہ دنیوی زندگی کے ظاہری پہلو سے دھوکہ نہ کھاؤ۔ یہاںاگر کوئی حساب لینے والا جواب طلب کرنے والا نظر نہیں  آتا تو یہ نہ سمجھو  کہ تم کسی کے سامنے ذمہ وار جواب دہ ہو ہی نہیں۔ یہاں اگر شرک ، وہریت، کفر، توحید، سب ہی نظریے آزادی سے اختیار کیے جاسکتے ہیں، اور دنیوی لحاظ سے کوئی خاص فرق پڑتا نظر نہیں آتا، تو نہ نہ سمجھو کہ ان کے کوئی الگ الگ مستقل نتائج ہیں ہی نہیں۔ یہاں اگر فسق و فجور اور اطاعت وتقویٰ، ہر قسم کے رویے اختیار کیے جا سکتے ہیں اور عملاً ان میں سے کسی رویے کا کوئی  ایک لازمی نتیجہ رونما نہیں ہوتا تو یہ نہ سمجھو کہ کوئی اٹل اخلاقی قانونی سرے سے  ہے ہی نہیں۔ دراصل حساب طلبی و جواب دہی سب کچھ ہے، مگر وہ مرنے کے بعد دوسری زندگی میں ہوگی۔ توحید کا نظریہ برحق اور باقی سب نظریات باطل ہیں، مگر ان کے اصلی اور قطعی نتائج حیات بعد الموت میں ظاہر ہوں گے اور وہیں وہ حقیقت بے نقاب ہوگی جو اس پر دہ ظاہر کے پیچھے چھپی ہوئی ہے۔ ایک اٹل اخلاقی قانون ضرور ہے جس کے لحاظ سے فسق نقصان رساں اور طاعت فائدہ بخش ہے ، مگر اس قانون کے مطابق آخری اور قطعی فیصلے بھی بعد کی زندگی ہی میں ہوں گے۔ لہٰذا تم دنیا کی اس عارضی زندگی پر فریفتہ نہ ہو اور اس کے مشکوک نتائج پر اعتماد نہ کرو، بلکہ اُس جواب دہی پر نگاہ رکھو جو تمہیں آخر کار اپنے خدا کے سامنے کرنی ہوگی، اور وہ صحیح اعتقادی اور اخلاقی رویہ اختیار کرو  جو تمہیں آخرت کے امتحان میں کامیاب کرے۔۔۔۔۔۔ یہ ہے قرآن کی دعوت۔ اب  یہ بالکل ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ جو شخص  سرے سے آخرت ہی کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس کا سارا اعتماد اسی دنیا کے مظاہر اور محسوسات و تجربات پر ہے ، وہ کبھی  قرآن کی اس دعوت کو ناقابل ِ التفات نہیں سمجھ سکتا ۔ اُس کے پردہ گوش سے تو یہ آواز ٹکرا ٹکرا کر ہمیشہ اچٹتی ہی رہے گی، کبھی دل تک پہنچنے کی راہ نہ پائے گی۔ اسی نفسیاتی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ جو آخرت کو نہیں مانتا ، ہم اس کے دل اور اس کے کان قرآن کی دعوت کے لیے بند کر دیتے ہیں۔یعنی یہ ہمارا قانونِ فطرت ہے جو اُس پر یوں نافذ ہوتا ہے۔
                یہ بھی خیال رہے کہ کفار مکہ کا اپنا قول تھا جسے اللہ تعالیٰ نے ان پر اُلٹ دیا ہے۔ سورہ حٰم سجدہ میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَقَالُوْ ا قُلُوْبُنَا فِیْ اَکِنَّةٍ مِّمَّا تَدْ عُوْنَا اِلَیْہِ وَفِی ْاٰذَانِنَا وَقْرٌوَّ مِنْۢ بَینِکَ حِجَابٌ فَاعْمَلْ اِنَّنَا عٰمِلُوْنَ(آیت ۵)یعنی وہ کہتے ہیں کہ ”اے محمد، تو جس  چیز کی طرف ہمیں دعوت دیتا ہے اس کے لیے ہمارے دل بند ہیں اور ہمارے کان بہرے ہیں اور ہمارے اور تیرے درمیان حجاب حائل ہو گیا ہے۔ پس تو اپنا کام کر، ہم اپنا کام کیے جا رہےہیں“۔ یہاں ان کے اس قول کو دہرا کر اللہ تعالیٰ یہ بتا رہا ہے کہ یہ کیفییت جسے تم اپنی خوبی سمجھ کر بیان کر رہے ہو، تو دراصل ایک پھٹکار ہے جو تمہارے انکار آخرت کی بدولت ٹھیک قانونِ فطرت کے مطابق تم پر پڑی ہے۔