اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر٦

بائیبل کے مجموعہ کتبِ مقدسہ میں یہ تنبیہات مختلف مقامات پر ملتی ہیں۔ پہلے فساد اور اس کے بُر ے نتائج پر بنی اسرائیل کو زبور، یسعیاہ، یرمیاہ اور حزقی ایل میں متنبہ کیا گیا ہے، اور دوسرے فساد اور اس کی سخت سزا کی پیش گوئی حضرت مسیح  ؑ نے کی ہے جو متی اور لوقا کی انجیلوں میں موجود ہے۔ ذیل میں ہم ان کتابوں کی متعلقہ عبارتیں نقل کرتے ہیں تاکہ قرآن کے اس بیان کی پوری تصدیق ہو جائے۔
                پہلے  فساد پر اولین تنبیہ حضرت داؤد نے کی تھی جس کے الفاظ یہ ہیں:
”انہوں نے اُن قوموں کو ہلاک نہ کیا جیسا خدا وند نے ان کو حکم دیا تھا بلکہ اُن قوموں کے ساتھ مل گئے اور ان کے سے کام سیکھ گئے اور ان  کے بتوں کی پرستش کرنےلگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی بیٹیوں کو شیاطین کے لیے قربان کیا اور معصوموں کا، یعنی اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کا خون بہایا۔۔۔۔۔۔ اس لیے خدا وند کا قہر اپنے لوگوں پر بھڑکا اور اسے اپنی میراث سے نفرت ہوگئی اور اس نے  ان قوموں کے قبضے میں کردیا اور ان سے عداوت رکھنے والے اُن پر حکمراں بن گئے“
(زبور، باب ١۰٦۔ آیات۳۴۔۴١)
                اس عبارت میں اُن واقعات کو جو بعد میں ہونے والے تھے، بصیغہ ماضی بیان کیا گیا ہے ، گویا کہ ہو ہو چکے ۔ یہ کتبِ آسمانی کا خاص انداز بیان ہے۔
                پھر جب یہ فساد عظیم رونما ہو گیا تو اس کے نتیجے میں آنے والی تباہی کی خبر حضرت یسعیاہ نبی اپنے صحیفے میں یوں دیتے ہیں:
                ”آہ، خطا کار گروہ، بد کرداری سے لدی ہوئی قوم، بد کرداروں کی نسل، مکار اولاد، جنہوں نے خدا وند کو ترک کیا، اسرائیل کے قدوس کو حقیر جانا اور گمراہ و برگشتہ ہو گئے، تم کیوں زیادہ بغاوت کر کے اور مار کھاؤ گے“؟ (باب١۔آیت۴۔۵)
                ”وفادار بستی کیسی بد کار ہوگئی!وہ تو انصاف سے معمور تھی اور راستبازی اس میں بستی تھی، لیکن اب خونی رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تیرے سردار گردن گش اور چوروں کے ساتھی ہیں۔ ان میں سے ہر ایک رشوت دوست اور انعام طلب ہے ۔ وہ یتیموں کا انصان نہیں کرتے اور بیواؤں کی فریاد ان تک نہیں پہنچتی۔ اس لیے خداوند ربُّ الافواج اسرائیل کا قادریوں فرماتا ہے کہ آہ، میں ضرور اپنے مخالفوں سے آرام پاؤں گا اور اپنے دشمنوں سے انتقام لوں گا“۔(باب ١۔آیت۲١۔۲۴)
                ”وہ اہل مشرق کی رسوم سے پُر ہیں اور فِلِستِیِوں کی مانند شگون لیتے اور بیگانوں کی اولاد کے ساتھ ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کیسر زمین بتوں سے بھی پُر ہے۔ وہ اپنے ہی ہاتھوں کی صنعت ، یعنی اپنی ہی انگلیوں کی کاریگری کو سجدہ  کرتے ہیں“۔(باب۲۔آیت٦۔۷)
                ”اور خدا وند فرماتا ہے ، چونکہ صہیون کی بیٹیاں(یعنی یروشلم کی رہنے والیاں)متکبر ہیں اور گردن گشی اور شوخ چشمی سے خراماں ہوتی اور اپنے پاوؤں سے ناز رفتاری کرتی اور گھنگھرو بجاتی جاتی ہیں اس لیے خدا وند صہیون کی بیٹیوں کے سر گنجے اور ان کے بدن بے پردہ کر دے گا۔۔۔۔۔۔تیرے بہادر تہ تیغ ہوں گے اور تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہوں گے۔ اُس کے پھاٹک ماتم اور نوحہ کریں گے اور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھے گی “۔(باب۳۔آیت١٦۔۲٦)
                ”اب دیکھ ، خداوند دریائے فرات کے سخت شدید سیلاب ، یعنی شاہ اسور(اسیریا) اور اس کی ساری شوکت کو ان پر چڑھا لائے گا اور وہ اپنے سب نالوں پر اور اپنے سب کناروں پر بہہ نکلے گا“۔
(باب ۸۔ آیت۷)
”یہ باغی لوگ اور جھوٹے فرزند ہیں جو خدا کی شریعت کو سننے سے انکار کرتے ہیں، جو غیب بینوں سے کہتے ہیں کہ غیب بینی نہ کرو، اور نبیوں سے کہ ہم پر سچی نبوتیں ظاہر نہ کرو۔ ہم کو خوشگوار باتیں سناؤ اور ہم سے جھوٹی نبوت کرو۔۔۔۔۔۔ پس اسرائیل کا قدوس یوں فرماتا ہے کہ چونکہ تم اس کلام کو حقیر جانتے ہو اور ظلم اور کجروی پر بھروسا کرتے ہو اور اسی پر قائم ہو اس لیے یہ بد کرداری تمہارے لیے ایسی ہو گی جیسے پھٹی ہوئی دیوار  جو گرا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ اسے کہا رکے بر تن کی طرح توڑ ڈالے گا، اسے بے دریغ چکنا چور کرے گا، اس کے ٹکڑوں میں ایک ٹھیکر ابھی ایسا نہ ملے گا جس میں چولھے پر سے آگ یا حوض سے پانی لیا جائے“۔
(باب ۳۰۔آیت۹۔١۴)
                پھر جب سیلاب کے بند بالکل ٹوٹنے کو تھے تو یرمیاہ نبی  کیآواز بلند ہوئی اور انہوں نے کہا:
                ”خداوند یوں فرماتا ہے کہ تمہارے باپ دادا نے مجھ میں کونسی بے انصافی پائی جس کے سبب سے وہ مجھ سےدور ہو گئے اور بطلان کی پیروی کر کے باطل ہوئے؟۔۔۔۔۔۔ میں تم کو باغوں والی زمین  میں لایا کہ تم اس کے میوے اور اس کے اچھے پھل کھاؤ، مگر جب تم داخل ہوئے تو تم نے میری زمین کو ناپاک کر دیا، اور میری میراث کو مکر وہ بنایا۔۔۔۔۔۔ مدت ہوئی کہ تو نے اپنے جوئے کو توڑ ڈالا اور اپنے بندھنوں کے ٹکڑے کر ڈالے اور کہا کہ میں تابع نہ رہوں گی۔ ہاں، ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ایک ہرے درخت کے نیچے تو بدکاری کے لیے لیٹ گئی (یعنی ہر طاقت کے آگے جھکی اور ہربت کو سجدہ کیا)۔۔۔۔۔۔ جس طرح چور پکڑا جانے پر رسوا ہوتا ہے اسی طرح اسرائیل کا گھرانا رسوا ہوا، وہ اور اس کے بادشاہ اور امراء ار کاہن اور (جھوٹے)بنی، جو لکڑی سے کہتے ہیں کہ تو میرا باپ ہے اور پھتر سے کہ تو نےمجھے جنم دیا، انہوں نے میری طرف منہ نہ کیا بلکہ پیٹھ کی، پر اپنی مصیبت کے وقت وہ کہیں گے کہ اُٹھ کر ہم کو بچا۔ لیکن تیرے وہ بُت کہاں ہیں جن کو تو نے اپنے لیے بنایا؟ اگر وہ تیری مصیبت کے وقت تجھ کو بچا سکتے ہیں تو اُٹھیں، کیونکہ اے یہوداہ!جتنےتیرے شہر میں اتنے ہی تیرےمعبود ہیں“۔(باب۲۔ آیت۵۔۲۸)
                ”خدا وند نے مجھ سے فرمایا، کیا تو نے دیکھا کہ بر گشتہ اسرائیل (یعنی سامریہ کی اسرائیلی ریاست)نے کیا کیا؟ وہ ہر ایک اونچے پہاڑ پر اور ہر ایک ہرے درخت کی نیچے گئی اور وہاں بدکاری(یعنی بت پرستی)کی۔۔۔۔۔۔ اور اس کی بے وفا بہن یہودا۔(یعنی یروشلم کی یہودی ریاست)نے یہ حال دیکھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب بر گشتہ اسرائیل کی زنا کاری (یعنی شرک )کے سبب سے میں نے اس کو طلاق دے دی اور اسے طلاق نامہ لکھ دیا(یعنی اپنی رحمت سے محروم کر دیا)تو بھی اس کی بے وفا بہن یہوداہ نہ ڈری بلکہ اس نے بھی جا کر  بد کاری کی اور اپنی بد کاری کی بُرائی سے زمین کو ناپاک کیا اور پتھر اور لکڑی کے ساتھ زنا کاری (یعنی بت پرستی)کی“۔(باب ۳۔ آیت٦۔۹)
”یروشلم کے کوچوں میں گشت کرو  اور دیکھو اور دریافت کرو اور اس کے چوکوں میں ڈھونڈو، اگر کوئی آدمی وہاں ملے جو انصاف کرنے والا اور سچائی کا طالب ہو تو میں اسے معاف کروں گا۔۔۔۔۔۔ میں تجھے کیسے معاف کروں، تیرے فرزندوں نے مجھ کو چھوڑا اور ان کی قسم کھائی جو خدا نہیں ہیں۔ جب میں نے ان کوسیر کیا تو انہوں نے بد کاری کی اور پرے باندھ کر قحبہ خانوں میں اکھٹے ہوئے۔ وہ پیٹ بھر ے گھوڑوں کے مانند ہوئے، ہر ایک صبح کے وقت اپنے پڑوسی کی بیوی پر بنبنانے لگا۔ خدا فرماتا ہے کیا میں ان باتوں کے لیے سزا نہ دوں گا اور کیا میری روح ایسی قوم سے انتقام نہ لے گی“؟(باب۵۔آیت١۔۹)
                ”اے اسرائیل کے گھرانے!دیکھ میں ایک قوم کو دور سے تجھ پر چڑ ھا لاؤں گا ۔ خدا وند فرماتا ہے وہ زبردست قوم ہے ۔ وہ قدیم قوم ہے۔ وہ ایسی قوم ہے جس کی زبان تو نہیں جانتا اور ان کی بات کو تو نہیں سمجھتا۔ ان کے تر کش کھلی قبریں ہیں۔ وہ سب بہادر  مرد ہیں۔ وہ تیری فصل کا اناج اور تیری روٹی جو تیرے بیٹوں بیٹیوں کے کھانے کی تھی کھا جائیں گے۔ تیرے گائے بیل اور تیری بکریوںں کو چٹ کر جائیں گے۔ تیرے انگور اور انجیر نگل جائیں گے ۔ تیرے مضبوط شہروں کو جن پر تیرا بھروسا ہے تلوار سے ویران کردیں گے“۔ (باب۵۔آیت١۵۔ا۷)
                ”اس قوم کی لاشیں ہوائی پرندوں اور زمین کے درندوں کی خوراک ہوں گی اور ان کی کوئی نہ ہنکائے گا۔ میں یہوداہ کے شہروں میں اور یرشلم کے بازاروں میں خوشی اور شاد مانی کی آواز، دولہا اور دلہن کی آوازموقوف کروں گا کیونکہ یہ ملک ویران ہو جائےگا“۔(باب۷۔آیت۳۳۔۳۴)
                ”ان کو میرے سامنے سے نکال دے کر چلے جائیں۔ اور جب وہ پوچھیں کہ ہم کدھر جائیں تو ان سے کہنا کہ خدا وند یوں فرماتا ہے کہ جو موت کے لیے ہیں وہ موت کی طرف، اور جو تلوار کے لیے ہیں وہ تلوار کی طرف، اور جو کال کےلیے ہیں وہ کال کو، اور جو اسیری کے لیے ہیں وہ اسیری میں“۔(باب ١۵۔آیت۲۔۳)
                پھر عین وقت پر حزقی ایل نبی اُٹھے اور انہوں نے یروشلم کو خطاب کر کے کہا:
                ”اے شہر، تو اپنے اندر خونریزی کرتا ہے تاکہ تیرا وقت آجائے اور تو اپنے لیے بُت بناتا ہے تاکہ تجھے ناپاک کریں۔۔۔۔۔۔ دیکھ، اسرائیل کے امراء سب کے سب جو تجھ میں ہیں مقدور بھر خونریزی پر مستعد تھے۔ تیرے اندر انہوں نے ماں پاک کا حقیر جانا۔ تیرے اندر انہوں نے پردیسیوں پر ظلم کیا۔ تیرے اندر انہوں نے یتیموں اور بیواؤں پر ستم کیا۔ تو نے میرے پاک چیزوں کو ناپاک جانااور میرے سبتوں کو ناپاک کیا۔ تیرے اندر وہ ہیں جو چلغخوری کر کے خون کرواتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو بُتوں کی قربانی  سے کھاتے ہیں۔ تیرے اندر وہ ہیں جو فسق و فجور کرتے ہیں۔ تیرے اندر وہ بھی ہیں جنہوں نے اپنے باپ  کی حرم شکنی کی۔ تجھ میں اُنہوں نے اُس عورت سے جو ناپاکی کی حالت میں تھی مباثرت کی۔ کسی نے دوسرے کی بیوی سے بدکاری  کی ، کسی نے اپنی بہو سے بد ذاتی کی، اور کسی نے اپنی بہن ، اپنے باپ کی بیٹی کو تیرے اندر رسوا کیا۔ تیرے اندر انہوں نے خونریزی کے لیے رشوت خواری کی۔ تو نے بیاج اور سود کیا اور ظلم کر کے اپنے پڑوسی کو لوٹا اور مجھے فراموش کیا۔۔۔۔۔۔ کیا تیرے ہاتھوں میں زور ہوگا جب میں تیرا معاملہ فیصل کروں گا؟۔۔۔۔۔۔ ہاں تجھ کو قوموں میں تتر بتر کر وں گا اور تیری گندگی تجھ میں سےبابود کردوں گا اور قوموں کے سامنے اپنے آپ میں ناپاک ٹھیرے گا اور معلوم کرے گا کہ میں خداوند ہوں“۔(باب ۲۲۔آیت۳۔١٦)
                یہ تھیں وہ تنبیہات جو بنی اسرائیل کو پہلے فساد عظیم کے موقع پر کی گئیں۔ پھر دوسرے فساد عظیم اور اس کے ہولناک نتائج پرحضرت مسیح علیہ السلام نے ان کو خبر دار کیا۔ متی باب ۲۳ میں آنجناب کا ایک مفصل خطبہ درج ہے جس میں وہ اپنی قوم کے شدید اخلاقی زوال پر تنقید کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
                ”اے یرشلم! اے یرشلم!تو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے ان کو سنگسار کرتا ہے کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں، مگر تو نے نہ چاہا۔ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لیے ویران چھوڑا جاتا ہے“۔(آیت ۳۷۔۳۸)
                ”میں تم کو سچ کہتا ہوں کہ یہاں کسی پتھر پر پتھر باقی نہ رہے گا جو کریا نہ جائے“۔(باب۲۴۔آیت۲)
                پھر جب رومی حکومت کے اہل کار حضرت مسیح کو صلیب دینے کے لیے لے جا رہے تھے اور لوگوں کی ایک بھیڑ جن میں عورتیں بھی تھیں،روتی پیٹتی ان کے پیچھے جا رہی تھیں، تو انہوں نے آخری خطاب کرتے ہوئے مجمع سے فرمایا:
                ”اے یروشلم کی بیٹیو: میرے لیے نہ رڈو بلکہ اپنے لیے اور اپنے بچوں کے لے رڈو۔ کیونکہ دیکھو، وہ دن آتے ہیں جب کہیں گے کہ مبارک ہیں بانجھیں اور وہ پیٹ جو نہ جنے اور وہ چھاتیاں جنہوں نے دودھ نہ پلایا۔ اس وقت وہ پہاڑوں سے کہنا شروع کریں گے کہ ہم پر گر پڑو اور ٹیلوں سے کہ ہمیں چھپالو“
(لوقا۔باب ۲۳۔ آیت ۲۸۔۳۰)