اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۷

اس سے مراد وہ ہولناک تباہی ہے جو آشوریوں اور اہل بابل کے ہاتھوں بنی اسرائیل پر نازل ہوئی۔ اس کا تاریخی پس منظر سمجنے کے لیے صرف وہ اقتباسات کافی نہیں ہیں جو اوپر ہم صُحف انبیاء سے نقل کر چکے ہیں ، بلکہ ایک مختصر تاریخی بیان بھی ضروری ہے تا کہ ایک طالب علم کے سامنے وہ تمام اسباب آجائیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایک حامل کتاب قوم کو امامت ِ اقوام کے منصب سے گر اکر ایک شکست خوردہ، غلام اور سخت پسماندہ قوم بنا کر رکھ دیا۔
                حضرت موسیٰ کی وفات کے بعد جب بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہوٹے تو یہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ حتِّی اَمَّوری کنعانی ، فِرِزِّی، حَوِی،یبوسی، فِلستی وغیرہ سان قوموں میں بد تیرن قسم کا شرک پایا جاتا تھا۔ ان کے سب سے بڑے معبود کا نام ایل تھا جسے یہ دیوتاؤں کا باپ کہتے تھے اور اسے  عموماً سانڈے سے تشبیہ دی جاتی تھی۔ اس کی بیوی کا نام عشیرہ تھا اور اس سے خداؤں اور خدانیوں  کی ایک پوری نسل چلی تھی جن کی تعداد۷۰ تک پہنچتی تھی۔ اس کی اولاد میں سب سے زیادہ زبردست بعل تھا جس کو بارش اور روئیدگی کا خدا اور زمین و آسمان کا مالک سمجھا جاتا تھا۔شمالی علاقوں میں اس کی بیوی اُناث کہلاتی تھی اور فلسطین میں عستارات۔ یہ دونوں خواتین عشق اور افزائش ِ نسل کی دیویاں تھیں۔ ان کے علاوہ کوئی دیوتا موت کا مالک تھا، کسی دیوی کے قبضے میں صحت تھی۔ کسی دیوتا کو وبا اور قحط لانے کے اختیارات تفویض کیے گئے تھے ، اور یوں ساری خدائی بہت سے معبودوں میں بٹ گئی تھی۔ ان دیوتاؤں اور دیویوں کی طرف ایسے ایسے ذلیل اوصاف و اعمال منسوب تھے کہ اخلاقی حیثیت سے انتہائی بد کر دار انسان بھی ان کے ساتھ مشتہر ہونا پسند نہ کریں۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جولوگ ایسی کمینہ ہستیوں کو خدا بنائیں اور ان کی  پرستش کریں وہ اخلاق کی ذلیل ترین پستیوں میں گرنے سے کیسے بچ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے جو حالات آثار قدیمہ کی کھدائیوں سے دریافت ہوئے ہیں وہ شدید اخلاقی گراوٹ کی شہادت بہم پہنچاتے ہیں۔ ان کے ہاں بچوں کی قربانی کا عام رواج تھا۔ ان کے معابد زنا کاری کے اڈے بنے ہوئے تھے۔ عورتوں کو دیوداسیاں بنا کر عبادت گاہوں میں رکھنا اور ان سے بدکاریاں کرنا عبادت کے اجزاء میں داخل تھا ۔ اور اسی طرح کی اور بہت سی بد اخلاقیاں ان میں پھیلی ہوئی تھیں۔
                توراة میں حضرت موسیٰ کے ذریعہ سے بنی اسرائیل کو جو ہدایات دی گئی تھیں ان میں صاف صاف کہہ دیا گیا تھا کہ تم ان قوموں کو ہلاک کر کے ان کے قبضے سے فلسطین کی سر زمین چھین لینا اور ان کےساتھ رہنے بسنے  اور ان کی اخلاقی و اعتقادی خرابیوں میں مبتلا ہونے سے پر ہیز کرنا۔
                لیکن بنی اسرائیل جب فلسطین میں داخل ہوئے تو وہ اس ہدایت کو بھول گئے۔ انہوں نے اپنی کوئی متحدہ سلطنت قائم نہ کی۔ وہ قبائلی عصبیت میں مبتلا تھے۔ ان کے ہر قبیلے نے اس بات کو پسند کیا کہ مفتوح علاقے کا ایک حصہ لے کر الگ ہوجائے۔ اس تفرقے کی وجہ سے ان کا کوئی قبیلہ بھی اتنا طاقتور نہ ہو سکا کہ اپنے علاقے کو مشرکین سے پوری طرح پاک کر دیتا۔ آخر کار انہیں یہ گوارا کرنا پڑا کہ مشرکین ان کےساتھ رہیں بسیں۔ نہ صرف یہ، بلکہ ان کے مفتوح علاقوں میں جگہ جگہ ان مشرک قوموں کی چھوٹی چھوٹی شہری ریاستیں بھی موجود رہیں جن کو بنی اسرائیل مسخر نہ کر سکے۔ اسی بات کی شکایت زبور کی اُس عبارت میں کی گئی ہے جسے ہم نے حاشیہ نمبر ٦ کےآغاز میں نقل کیا ہے۔
                اس کا پہلا خمیازہ تو بنی اسرائیل کو یہ بھگتنا پڑا کہ ان قوموں کےذریعے سے ان کے اندر شرک گھس آیا اور اس کے ساتھ بتدریج دوسری اخلاقی گندگیاں بھی راہ پانے لگیں۔ چنانچہ اس کی شکایت بائیبل کی کتاب قُضاة میں یوں کی گئی ہے:
                ”اور بنی اسرائیل نےخداوند کے  آگے بدی کی بعلیم کی پرستش کرنے لگے۔ اور انہوں نے خدا وند اپنے باپ دادا کے خدا کو جا انہیں ملک مصر سے نکال لایا تھا چھوڑ دیا او دوسرے معبودوں کی جو اُن کے گرداگرد کی قوموں کے دیوتاؤں میں سے تھے پیروی کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگے اور خداوند کو غصہ دلایا۔ وہ خداوند کو چھوڑ کر بعل اور عستارات کی پرستش کرنے لگے اور خدا وند کا قہر اسرائیل پر بھڑکا۔
(باب۲۔آیت١١۔١۳)
                اس  کے بعد دوسرا خمیازہ انہیں یہ بھگتنا پڑا کہ جن قوموں کی شہری ریاستیں  انہوں نے چھوڑ دی تھیں انہوں نے اور فلستینوں نے، جن کا پورا علاقہ غیر مغلوب رہ گیا تھا، بنی اسرائیل کے خلاف ایک متحدہ محاذ قائم کیا اور پے در پے حملے کر کے فلستین کے بڑے حصے سے ان کو بے دخل کر دیا، حتٰی کہ ان سے خدا وند کے عہد کا صندوق (تابوتِ سکینہ)تک چھین لیا۔ آخر کار بنی اسرائیل کو ایک فرمانروا کے تحت اپنی ایک متحدہ سلطنت قائم کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی، اور ان کی درخواست پر حضرت سموئیل نبی نے سن١۰۲۰ قبل مسیح میں طالوت کا ان کا بادشاہ بنایا۔ (اس کی تفصیل سورہ بقرہ رکوع ۳۲ میں گزر چکی ہے)۔
                اس متحدہ سلطنت کے تین فرمانروا ہوئے۔طالوت(سن ١۰۲۰ تا١۰۰۴ ق م)، حضرت داؤد علیہ السلام (سن١۰۰۴ تا ۹٦۵ ق م) اور حضڑت سلیمان علیہ السلام(سب ۹٦۵ تا ۹۲٦ ق م )۔ ان فرمانرواؤں نے اُس کام کو مکمل کیا جسے بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ کے بعد نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ صرف شمالی ساحل پر فنیقیوں کی اورجنوبی ساحل پر فلستیوں کی ریاستیں باقی رہ گئیں جنہیں مسخر نہ کیا جاسکا اور محض باج گزار بناے پر اکتفا کیا گیا ۔
                حضرت سلیمان ؑ  کے بعد بنی اسرائیل پر دنیا پرستی کا پھر شدید غلبہ ہوا اور انہوں نے آپس میں لڑ کر اپنی دو الگ سلطنتیں قائم کر لیں۔ شمالی فلسطین اور شرق اردن میں  سلطنت اسرائیل ، جس کا پایہ تخت آخر کار سا مِریہ قرار پایا۔ اور جنوبی فلسطین اور ادُوم کے علاقے میں سلطنت یہود یہ جس کا پایہ تخت یروشلم رہا۔ ان دونوں سلطنتوں میں سخت رقابت اور کشمکش اور روز سے شروع ہو گئی اور آخر تک رہی۔
                ان میں اسرائیل ریاست کے فرمانروا اور باشندے ہمسایہ قوموں کے مشرکانہ عقائد اور اخلاقی فساد سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور یہ حالت اپنی انتہا کو پہنچ گئی جب اس ریاست کے فرمانروا اخی اب نے صیدا کی مشرک شہزادی ایزِ بل سے شادی کر لی۔ اس وقت حکومت کی طاقت اور ذرائع سےشرک اور بد اخلاقیاں سیلاب کی طرح اسرائیلیوں میں پھیلنی شروع ہوئیں۔ حضرت الیاس اور حضرت الیَسع علیہما السلام نے اس سیلاب کو روکنے کی انتہائی کوشش کی۔ مگر یہ قوم جس تنزل کی طرف جا رہی تھی اس سے باز نہ آئی۔ آخر کار اللہ کا غضب اشوریوں کی شکل میں دولت اسرائیل کی طرف متوجہ ہوا اور نویں صدی قبل مسیح سے فلسطین پر اشوری فاتحین کے مسلسل حملے شروع ہو گئے۔ اس دور میں عامو س نبی ( سن۷۸۷ تا ۷۴۷ قبل مسیح)اور پھر ہوسیع نبی(سن۷۴۷ تا۷۳۵ قبل مسیح) نے اٹھ کر اسرائیلیوں کو پے در پے تنبیہات کیں، مگر جس غفلت کے نشے میں وہ سر شار تھے وہ تنبیہ کی ترشی سے اور زیادہ تیز ہو گیا۔ یہاں تک کہ عاموس نبی کو شاہ اسرائیل نے ملک سے نکل جانے اور دولت سامریہ کے حدود میں اپنی نبوت کر دیا، ہزار ہا اسرائیلی تہ تیغ کیے گیے،۲۷ ہزار سے زیادہ با ا ثر اسرائیلیوں کو ملک سے نکال کر اشوری سلطنت کے مشرقی اضلاع میں تتر بتر کر دیا گیا، اور دوسرے علاقوں سے لا کر غیر قوموں کو اسرائیل کے علاقے میں بسا یا گیا جن کے درمیان رہ بس کر بچا کھچا اسرائیلی عنصر بھی اپنی قومی تہذیب سے روز بروز زیادہ بیگانہ ہوتا چلا گیا۔
                بنی اسرائیل کی دوسری ریاست جو یہود یہ کے نام سے جنوبی فلسطین میں قائم ہوئی، وہ بھی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بعد بہت جلدی شرک اور بد اخلاقی میں مبتلا ہو گئی، مگر نسبتہً اس کا اعتقادی اور اخلاقی زوال دولتِ اسرائیل کی بہ نسبت سُست رفتار تھا، اس لیے اس کو مہلت بھی کچھ زیادہ دی گئی ۔ اگر چہ دولتِ اسرائیل کی طرح اس پر بھی اشوریوں نے پے در پے حملے کیے، اس کے شہروں کو تباہ کیا، اس کے پایہ تخت کا محاصرہ کیا، لیکن یہ ریاست اشوریوں کے ہاتھوں ختم نہ ہو سکی بلکہ صرف باج گزار بن کر رہ گئی۔ پھر جب حضرت یسعیاہ اور حضرت یرمیاہ کی مسلسل کوششوں کے باوجود یہود یہ کہ لوگ بُت پرستی اور بد اخلاقیوں سے باز نہ آئے تو سن ۵۹۸ قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے یروشلم سمیت پوری دولت یہودیہ کو مسخر کر لیا اور یہودیہ کا بادشاہ اس کے پاس قیدی بن کر رہا۔ یہودیوں کی بد اعمالیوں کا سلسلہ اس پر بھی ختم نہ ہوا اور  حضرت یر میاہ کے سمجھانے کے باوجود وہ اپنے اعمال درست کرنے کے بجائے بابل کے خلاف بغاوت کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کرنے لگے۔ آخر سن ۵۸۷ قبل مسیح میں بخت نصر نے ایک سخت حملہ کر کے یہودیہ کے تمام بڑے چھوٹے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، یروشلم اور ہیکل سلیمانی کو اس طرح پیوند خاک کیا کہ اس کی ایک دیوار بھی اپنی جگہ کھڑی نہ رہی ، یہودیوں کی بہت بڑی تعداد کو ان کے علاقے سے نکال کر ملک ملک میں تتر بتر کر دیا اور جو یہودی اپنے علاقے میں رہ گئے وہ بھی ہمسایہ قوموں کے ہاتھوں بُری طرح ذلیل اور پامال ہو کر رہے۔
                یہ تھا وہ پہلا فساد جس سے بنی اسرائیل کو متنبہ کیا گیا تھا ، اور یہ تھی وہ پہلی سزا جو اس کی پاداش میں ان کی دی گئی۔