اس رکوع کو چھاپیں

سورة بنی اسرائیل حاشیہ نمبر۸۲

اوپر کےسلسلہ بیان سے اس کا تعلق سمجھنے  کے لیے اس رکوع کے ابتدائی مضمون پر پھر ایک نگاہ ڈال لی جائے۔ اس میں یہ بتایا گیاہے کہ ابلیس اولِ روزِ آفرنیش سے اولاد آدم کے پیچھے پڑا ہوا ہے تا کہ اس کو آرزؤوں اور تمناؤں اور جھوٹے وعدوں کے دام میں پھانس  کر راہ راست سے ہٹا لے  جائے اور یہ ثابت کر دے کہ وہ اس بزرگی کا  مستحق نہی ہے جو اسے خدا نے  عطا کی ہے ۔ اس خطرے سےا گر کوئی چیز انسان کو بچا سکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ انسان اپنے رب کی بندگی پر ثابت قدم رہے اور ہدایت و اعانت کے لیے اُسی کی طرف رجوع کرے اور اسی کو اپنا وکیل(مدارِ توکل)بنائے۔ اس کے سوا دوسری جو راہ بھی انسان اختیار کرے گا، شیطان کے پھندوں سے نہ بچ سکے گا۔۔۔۔۔۔اس تقریر سے یہ بات خود بخود نکل آئی کہ جو لوگ توحید کی دعوت کو رد کر رہے ہیں اور شرک پر اصرار کیے جاتے ہیں وہ دراصل آپ ہی اپنی تباہی کے درپے ہیں۔ اسی مناسبت سے یہاں توحید کا اثبات اور شرک کا ابطال کیا جا رہا ہے۔