اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر۲١

 مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس اس آیت بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھیرا کر مقبِر صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعد الموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے لیے دکھائی گئی تھی اسے انہوں نے ارتکاب شرک کے لیے ایک خدا داد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو ، کچھ اور دلی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آ گئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جا سکتا ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں :
لعن اللہ تعالیٰ زائرات القبور و المتخذین علیھا المساجد والسرج۔ (احمد، ترمذی ، ابو داؤد نسائی۔ ابن ماجہ)۔ ’’اللہ نے لعبت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔
الاوان من کان قبلکم کا نو ا یتخذون قبور انبیاء ھم مَساجد فانی اَنھٰکم عن ذٰلک (مسلم) خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا دیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔ لعن اللہ تعالیٰ الیھود و النصاریٰ اتخذوا قبور انبیآء ھم مساجد (احمد، بخاری، مسلم ، نَسائی) ’’ اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔
اِنَّ اولٰٓئک اذا کان فیھم الر جل الصالح فما ت بنو ا علیٰ قبرہ مسٰجد او صورو افیہ تلک الصور اولٰٓئک شرار الخلق یوم القیٰمۃ (احمد ، بخاری، مسلم، نسائی) ’’ ان وگو کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مرد صالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ یہ قیامت کے روز بد ترین مخلوقات ہوں گے۔
نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کر سکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ نعل کا حکایۃً ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھیرائے ؟
اس موقع پر یہ ذکر کر دینا بھی خالی اس فائدہ نہیں کہ ۱۸۳۴ء میں ریورنڈٹی ارنڈیل (Arundeil ) نے ایشیائے کوچک کے اکتشافات ‘‘ (Discoveries in Asia Mino ) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور ’’ سات لڑکوں ‘‘ (یعنی اصحاب کہف ) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں۔