اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر۲۷

اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ معاذاللہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کفار مکہ کی خاطر قرآن میں کچھ رد و بدل کر دینے اور سرداران قریش سے کچھ کم و بیش پر مصالحت کر لینے کی سوچ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے منع فرما رہا تھا۔ بلکہ در اصل اس میں روئے سخن کفار مکہ کی طرف ہے اگرچہ خطاب بظاہر نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے۔ مقصود کفار کو یہ بتانا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے کلام میں اپنی طرف سے کوئی کمی یا بیشی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ ان کا کام بس یہ ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اسے بے کم و کاست پہنچا دیں۔ تمہیں ماننا ہے تو اس پورے دین کو جوں کا توں مانو جو خداوند عالم کی طرف سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اور نہیں ماننا تو شوق سے نہ مانو۔ مگر یہ امید کسی حال میں نہ رکھو کہ تمہیں راضی کرنے کے لیے اس دین میں تمہاری خواہشات کے مطابق کوئی ترمیم کی جائے گی، خواہ وہ کیسی ہی جزوی سی ترمیم ہو۔ یہ جواب ہے اس مطالبے کا جو کفار کی طرف سے بار بار کیا جاتا تھا کہ ایسی بھی کیا ضد ہے کہ ہم تمہاری پوری بت مان لیں۔ آخر کچھ تو ہمارے آبائی دین کے عقائد اور رسم و رواج کی رعایت ملحوظ رکھو۔ کچھ تم ہماری مان لو، کچھ ہم تمہاری مان لیں۔ اس پر سمجھوتہ ہو سکتا ہے اور برادری پھوٹ سے بچ سکتی ہے۔ قرآن میں ان کے اس مطالبے کا متعدد مواقع پر ذکر کیا گیا ہے اور اس کا یہ جواب دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر سورہ یونس کی آیت ۱۵ ملاحظہ ہو :وَ اِذَا تُتْلیٰ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُنَا بَیِّنٰتتٍ قَالَ الَّذِیْنَ لایَرْجُوْنَ لِقَآئَ نَا ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَیْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّلْہُ۔ ’’ جب ہماری آیات صاف صاف ان کو سنائی جاتی ہیں تو وہ لوگ جو کبھی ہمارے سامنے حاضر ہونے کی توقع نہیں رکھتے ، کہتے ہیں کہ اس کے بجائے کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں کچھ ترمیم کرو‘‘۔