اس رکوع کو چھاپیں

سورة الکھف حاشیہ نمبر۴۸

 یعنی ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا بلکہ جنوں میں سے تھا، اس یلیے اطاعت سے باہر ہو جاتا اس کے لیے ممکن ہوا۔ فرشتوں کے متعلق قرآن تصریح کرتا ہے کہ وہ فرۃً مطیع فرمان ہیں : لَایَعْصُوْنَ اللہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَایُؤْ مَرْوْنَ مَا لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ رَبُّھُمْ مِنْ فَوْقِہمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُوؤْ نَ مَا یُؤْمَرُوْنَ (النحل ۵۰) ’’ سہ سرکشی نہیں کرتے ، اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے ‘‘۔ بخلاف اس کے جن انسانوں کی طرح ایک ذی اختیار مخلوق ہے جسے پیدائشی فرمان بردار نہیں بنایا گیا بلکہ کفر و ایمان اور طاعت و معصیت ، دونوں کی قدرت بخشی گئی ہے۔ اس حقیقت کو یہاں کھولا گیا ہے کہ ابلیس جنوں میں سے تھا اس لیے اس نے خود اپنے اختیار سے فسق کی راہ انتخاب کی۔ یہ تصریح ان تمام غلط فہمیوں کو رفع کر دیتی ہے جو عموم! لوگوں میں پائی جاتی ہیں کہ ابلیس فرشتوں میں سے تھا اور فرشتہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ معلم الملکوت۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو الحِجر،آیت ۲۷۔ اور الجِن ، آیات ۱۳۔ ۱۵)۔
رہا یہ سوال کی جب ابلیس فرشتوں میں سے نہ تھا تو پھر قرآن کا یہ طرزِ بیان کیونکہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ’’ ہم نے ملائکہ کو کہا کہ آدم کو سجدہ کرو پس ان سے نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا‘‘؟ اس کا جواب یہ ہے کہ فرشتوں کو سجدے کا حکم دینے کے معنی یہ تھے کہ وہ تمام مخلوقات ارضی بھی انسان کی مطیع فرمان بن جائی جو کرۂ زمین کی عملداری میں فرشتوں کے زیر انتظام آباد ہیں۔چنانچہ فرشتوں کے ساتھ یہ سب مخلوقات بھی سر بسجود ہوئیں۔ مگر ابلیس نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا۔ (لفظ ابلیس کے معنی کے لیے ملاحظہ ہو المومنون حاشیہ ۷۳)