اس رکوع کو چھاپیں

سورة مریم حاشیہ نمبر١۲

حضرت یحییٰ کے حو حالات مختلف انجیلوں میں بکھرے ہوئے ہیں انہیں جمع کر کے ہم یہاں ان کی سیرت پاک کا ایک نقشہ پیش کرتے ہیں جس سے سُورۂ آلِ عمران اور اس سورے کے مختصر اشارات کی توضیح ہو گی۔
                لوقا کے بیان کے مطابق حضرت یحییٰ ، حضرت عیسیٰ سے ۶ مہینے بڑے تھے۔ ان کی والدہ اور حضرت عیسیٰ کی والدہ آپس میں قریبی رشتہ دار تھیں۔ تقریباً ۳۰ سال کی عمر میں وہ نبوت کے منصب پر عملاً مامور ہوئے اور یوحنا کی روایت کے مطابق انہوں نے شرقِ اُرْدُن کے علاقے میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کیا ۔ وہ کہتے تھے:
”میں بیابان میں ایک پکارنے والے کی آواز ہوں کہ تم خداوند کی راہ کو سیدھا کرو“۔(یوحنا ۲۳:۱)
مرقس کا بیان ہے کہ وہ لوگوں سے گناہوں کی توبہ کراتے تھے اور توبہ کرنے والوں کو بپتسمہ دیتے تھے، یعنی توبہ کے بعد غسل کراتے تھے تاکہ  روح اور جسم دونوں پاک ہو جائیں ۔ یہودیہ اور یروشلم کے بکثرت لوگ ان کے معتقد ہو گئے تھے اور ان کے پاس جا کر بپتسمہ لیتے تھے ( مرقس ۴:۱-۵) ۔ اسی بنا پر ان کا نام بپتسمہ دینے والا( John The Baptiest ) مشہور ہو گیا تھا۔ عام طور پر بنی اسرائیل ان کی نبوت تسلیم کر چکے تھے (متی ۲۶:۲۱) مسیح علیہ السّلام کا قول تھا کہ ” جو عورتوں سے پیدا  ہوئے ہیں ان میں یوحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا۔“ (متی ۱۱:۱۱)
وہ اونٹ کے بالوں کو پوشاک پہنے اور چمڑے کا پٹکا کمر سے باندھے رہتے تھے اور ان کی خوراک ٹڈیاں اور جنگلی شہد تھا  (متی ۴:۳)۔ اس فقیرانہ زندگی کے ساتھ وہ منادی کرتے پھرتے تھے کہ ”توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی قریب آگئی ہے“ (متی ۲:۳) یعنی مسیح علیہ السّلام کی دعوتِ نبوت کا آغاز ہونے والا ہے۔ اسی بنا پر ان کو عموماً حضرت مسیح کا ”ارہاص“ کہا جاتا ہے ، اور یہی بات ان کے متعلق قرآن میں کہی گئی ہے کہ مُصَدِّ قًا بِکَلِمَۃٍ مِّنَ اللہِ (آلِ عمران ۴)۔
وہ لوگوں کو روزے اور نماز کی تلقین کرتے تھے (متی ۱۴:۹ – لوقا ۳۳:۵ – لوقا ۱:۱۱) ۔ وہ لوگوں سےکہتے تھے کہ ”جس کے پا س دو کرتے ہوں وہ اُس کو جس کے پاس نہ ہو بانٹ دے اور جس کے پاس کھانا ہو وہ بھی ایسا ہی کرے۔ “ محصول لینے والوں نے پوچھا کہ اُستاد ، ہم کیا کریں تو انہوں نے فرمایا” جو تمہارے لیے مقرر ہے اس سے زیادہ نہ لینا۔“ سپاہیوں نے پوچھا  ہمارے لیے کیا ہدایت ہے ؟ فرمایا” نہ کسی پر ظلم کرو اور نہ نا حق کسی سے کچھ لو اور اپنی تنخواہ پر کفایت کرو“ (لوقا ۳:۱۰ – ۱۴)۔ بنی اسرائیل کے بگڑے ہوئے علماء، فریسی اور صَدُوتی ان کے پاس بپتسمہ لینے آئے تو ڈانٹ کر فرمایا” اے سانپ کے بچو! تم کو کس نے جتا دیا کہ آنے والے غضب سے بھاگو؟ ۔۔۔۔۔۔ اپنے دلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراہام ہمارا باپ ہے ۔۔۔۔۔۔ اب درختوں کی جڑوں پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے، پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا ہو کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے“(متی ۷:۳ – ۱۰)۔
ان کے عہد کا یہودی فرمانروا ، ہیرو د اینٹی پاس، جس کی ریاست میں وہ دعوتِ حق کی خدمت انجام دیتے تھے، سرتاپارومی تہذیب میں غرق تھا اور اس کی وجہ سے سارے ملک میں فسق و فجور پھیل رہا تھا۔ اس نے خود اپنے بھائی فِلپ کی بیوی ہیرودیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا۔ حضرت یحییٰ نے اس پر ہیرود کو ملامت کی اور اس کی فاسقانہ حرکات کے خلاف آواز اُٹھائی۔ اس جرم میں ہیرود نے ان کو گرفتار کر کےجیل بھیج دیا۔ تاہم وہ ان کو ایک مقدس اور راستباز آدمی جان کر  ان کا احترام بھی کرتا تھا اور پبلک میں ان کے غیرمعمولی اثر سے ڈرتا بھی تھا۔ لیکن ہیرودیاس یہ سمجھتی تھی کہ  یحییٰ علیہ السّلام جو اخلاقی روح قوم میں پھونک رہے ہیں وہ لوگوں کی نگاہ میں اُس جیسی عورتوں کو ذلیل کیے دے رہی ہے۔ اس لیے وہ ان کی جان کے درپے ہوگئی۔ آخر کار ہیرود کی سالگرہ کے جشن میں اس نے وہ موقع پا لیا کہ جس کی وہ تاک میں تھی۔ جشن کے دربار میں اس کی بیٹی نے خوب رقص کیا جس پر خوش ہو کر ہیرود نے کہا مانگ کیا مانگتی ہے ۔ بیٹی نے اپنی فاحشہ ماں سے پوچھا کیا مانگوں ؟ ماں نے کہا کہ یحیی ٰ کا سر مانگ لے۔ چنانچہ اس نے ہیرود کے سامنے ہاتھ باندھ کر عرض کیا مجھے یوحنا بپتسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں رکھوا کر  ابھی منگوا دیجیے۔ ہیرود یہ سُن کر بہت غمگین ہوا ، مگر محبوبہ کی بیٹی کا تقاضا کیسے رد کر سکتا تھا ۔ اس نے فوراً قید خانے سے یحییٰ علیہ السّلام کا سرکٹوا کر منگوایا اور ایک تھا ل میں رکھوا کر رقاصہ کی نذر کر دیا (متی ۳:۱۴ – ۱۲ ۔ مرقس ۱۷:۶ – ۲۹۔ لوقا ۱۹:۳ – ۲۰)۔