اس رکوع کو چھاپیں

سورة مریم حاشیہ نمبر۳۹

یہ پورا پیراگراف ایک جملۂ معترضہ ہے جو ایک سلسلہ ٰ کلام کو ختم کر کے دوسرا سلسلہ ٔ کلام شروع کرنے سے پہلے ارشاد ہوا ہے۔ اندازِ کلام صاف بتا رہا ہے کہ یہ سورۃ بڑی دیر کے بعد ایسے زمانے میں نازل ہوئی ہے جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ  کے صحابہ بڑے اضطراب انگیز حالات سے گر رہے ہیں۔ حضور کو اور آپؐ کے صحابیوں کو ہر وقت وحی کا انتظار  ہے تاکہ اس سے رہنمائی بھی ملے اور تسلی بھی حاصل ہو۔جوں جوں وہی آنے میں دیر ہو رہی ہے اضطراب بڑھتا جاتا ہے۔ اس حالت میں جبریل علیہ السّلام فرشتوں کے جھرمٹ میں تشریف لاتے ہیں ۔ پہلے وہ فرمان سُناتے ہیں جو موقع کی ضرورت کے لحاظ سے فوراً درکا ر تھا۔ پھر آگے بڑھنے  سے پہلے اللہ تعالیٰ کے اشارے سے یہ چند کلمات اپنی طرف سے کہتے ہیں جن میں اتنی دیر تک اپنے حاضر نہ ہونے کی معذرت بھی ہے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے حرفِ تسلی بھی، اور ساتھ ساتھ صبر و ضبط کی تلقین بھی۔
یہ صرف کلام کی اندرونی شہادت ہی نہیں ہے بلکہ متعدّد روایات بھی اس کی تصدیق کرتی ہیں جنہیں ابنِ جریر ، ابنِ کثیر اور صاحب رپوح المعانی وغیرہم نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔