اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر١۵

“بائیبل مں اس کی جو تشرح بیان ہوئی ہے وہ یہ ے کہ حضرت موسیٰ ؑ  نے عرض کیا”اے خداوند، میں فصیح نہیں ہوں نہ پہلے ہی تھا اور نہ جب سے تُو نے اپنے بندے سے کلام کیا۔ بلکہ رُک رُک کر بولتا ہوں اور میری زبان کند ہے “(خروج ۱۰:۴)۔  مگر تلمود میں اس کا ایک لمبا چوڑا قصّہ بیان ہوا ہے۔ اس میں  یہ ذکر ہے  کہ بچپن میں جب حضرت موسیٰؑ فرعون کے گھر پرورش پا رہے تھے، ایک روز انہوں نے فرعون کے سر کا تاج اتار کر اپنے سر پر رکھ لیا ۔ اس پر یہ سوال پیدا ہوا کہ اس بچے نے یہ کام بالارادہ کیا ہے یا یہ محض طفلانہ فعل ہے۔ آخر کار یہ تجویز کیا گیا  کہ بچے کے سامنے سونا اور آگ دونوں ساتھ رکھے جائیں چنانچہ دونوں چیزیں لا کر سامنے رکھی گئیں اور حضرت موسیٰ ؑ نے اُٹھا کر آگ منہ میں رکھ لی۔ اس طرح ان کی جان تو بچ گئی ، مگر زبان میں ہمیشہ کے لیے لکنت پڑ گئی۔
                یہی قصّہ اسرائیلی روایات سے منتقل ہو کر ہمارے کی تفسیروں میں بھی رواج پا گیا ۔ لیکن عقل اسے ماننے سے انکار کرتی ہے۔ اس لیے کہ اگر بچے نے آگ پر ہاتھ مارا بھی ہو تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ وہ انگارے کو اُٹھا کر مُنہ میں لے جا سکے۔ بچہ تو آگ کی جلن محسُوس کر تے ہی ہاتھ کھینچ لیتا  ہے۔ منہ میں لے جانے کی نوبت ہی کہاں سے آسکتی ہے؟ قرآن کے الفاظ سے جو بات ہماری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰؑ اپنے اندر خطابت کی صلاحیت نہ پاتے تھے اور ان کو اندیشہ لاحق تھا کہ نبوّت کے فرائض ادا کرنے کے لیے اگر تقریر کی ضرورت کبھی پیش آئی ( جس کا انہیں اُس وقت تک اتفاق نہ ہوا تھا) تو ان کی طبیعت کی جھجک مانع ہو جائے گی۔ اس لیےانہوں نے دعا فرمائی کہ یا اللہ میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ میں اچھی طرح اپنی بات لوگوں کو سمجھا سکوں ۔ یہی چیز  تھی جس کا فرعون نے ایک مرتبہ ان کو طعنہ دیا کہ ”یہ شخص تو اپنی بات بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکتا“ لَا یَکَادُ یُبِیْنُ۔ الزُخرُف – ۵۲) اور یہی کمزوری تھی جس کو محسوس کر کے حضرت موسیٰ ؑ نے اپنے بڑے بھائی حضرت ہارون ؑ کو مددگار کے طور پر مانگا ۔ سورۂ قصص میں ان کا یہ قول نقل کیا گیا ہے وَاَخِیْ ھٰرُوْنَ ھُوَاَفْصَحُ مِنِّیْ لِسَانًا فَاَ رْسِلْہُ مِعِیَ رِدْاً، ”میرا بھا ئی ہارون مجھ سے زیادہ زبان آور ہے، اُس کو میرے ساتھ مددگار کے طور پر بھیج“۔ آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰؑ  کی یہ کمزوری دُور ہو گئی تھی اور وہ خوب زور دار تقریر کرنے لگے تھے، چنانچہ قرآن میں اور بائیبل میں ان کی بعد کے دَور کی جو تقریریں آئی ہیں وہ کما فصاحت و طلاقتِ لسانی کی شہادت دیتی ہیں۔
                یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی ہکلے یا توتلے آدمی کو اپنا رسول مقرر فرمائے۔ رسول ہمیشہ شکل و صورت ، شخصیت اور صلاحیتوں کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں جن کے ظاہر وہ باطن کا ہر پہلو دلوں اور نگاہوں کو متاثر کرنے والا ہوتا تھا۔ کوئی رسول ایسے عیب کے ساتھ نہیں بھیجا گیا اور نہیں بھیجا جا سکتا  تھا جس کی بنا پر وہ لوگوں میں مضحکہ بن جائے اور یا حقارت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔