اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۲١

دونوں بھائیوں میں سے اصل صاحبِ دعوت چونکہ  موسیٰ علیہ السّلام تھے اس لیے فرعون نے انہی کو مخاطب کیا۔ اور ہو سکتا ہے کہ خطاب کا رُخ ان کی طرف رکھنے سے اس کا مقصد یہ بھی ہو کہ وہ حضرت ہارون کی فصاحت و بلاغت کو میدان میں آنے کا موقع نہ دینا چاہتا ہو اور خطابت کے پہلو میں حضرت موسیٰ ؑ کے ضعف سے فائدہ اُٹھا نا چاہتا ہو جس کا ذکر اس  سے پہلے گزر چکا ہے۔
فرعون کے اس سوال کا منشا یہ تھا کہ تم دونوں کسے ربّ بنا بیٹھے ہو ، مصر اور اہلِ مصر کا ربّ  تو میں ہوں۔ سورۂ نازعات میں اس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اَنَا رَبُّکُمُ الْاَعْلیٰ،”اے اہلِ مصر، تمہارا ربّ اعلیٰ میں ہوں“۔سورۂ زُخْرف میں وہ بھرے دربار کو مخاطب کر کے کہتا ہے   یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَھٰذِہِ الْاَنْھَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ،”اے قوم، کیا مصر کی بادشاہی میری نہیں ہے؟ اور نہ نہریں میرے نیچے نہیں بہ رہی ہیں؟“ (آیت ۵۱)۔ سورۂ قصص میں وہ اپنے درباریوں کے سامنے یوں بنکارتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الْمَلَاُ مَا عَلِمْتُ لِکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرِیْ، فَاَوْقِدْ لِیْ یَا ھَا مٰنُ عَلَی الطِّیْنِ فَا جْعَلْ لِّیْ صَرْحًا لَّعَلّیِ اَطَّلِعُ اِلیٰ اِلٰہِ مُوْسٰی، ”اے سردارانِ قوم، میں نہیں جانتا کہ میرے سوا تمہارا کوئی اور بھی الٰہ ہے، اے ہامان، ذرا اینٹیں پکوا اور ایک بلند عمارت میرے لیے تیار کرا تاکہ میں ذرا اوپر چڑھ کر دیکھوں تو سہی کہ یہ موسیٰ کسے الٰہ بنا رہا ہے“۔ (آیت نمبر ۳۸)۔ سورۂ شعراء میں وہ حضرت موسیؑ کو ڈانٹ کر کہتا ہے لَئِنِ اتَّخَذْتَ اِلٰھًا غَیْرِیْ لَاَ جْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْ نِیْنَ،”اگر تُو نے میرے سوا کسی کو الٰہ بنایا تو یاد رکھ کہ تجھے جیل بھیج دوں گا“(آیت نمبر۲۹)۔
اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فرعون اپنی قوم کا واحد معبود تھا اور وہاں اس کے سوا کسی کی پرستش نہ ہوتی تھی ۔ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ فرعون خود سورج دیوتا (رع یا راع) کے اوتار کی حیثیت سے بادشاہی کا استحقاق جتاتاتھا، اور یہ بات بھی مصر کی تاریخ سے ثابت ہے کہ اس قوم کے مذہب میں بہت سے دیوتاؤں اور دیویوں کی عبادت ہوتی تھی۔ اس لیے فرعون کا دعویٰ ”واحد مرکز ِ پرستش“ ہونے کا نہ تھا، بلکہ وہ عملاً مصر کی اور نظریے کے اعتبار سے دراصل پوری نوعِ انسان کی سیاسی ربوبیت و خداوندی کا مدعی تھا  اور یہ ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ اُس کے اوپر کوئی دوسری ہستی فرمانروا ہو جس کا نمائندہ ، آکر اسے ایک حکم دے اور اس حکم کی اطاعت کا مطالبہ اس سے کرے۔ بعض لوگوں کو اُس کی لن ترانیوں سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کا منکر تھا اور خود خدا  ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا ۔ مگر یہ بات قرآن  سے ثابت ہے کہ وہ عالمِ بالا پر کسی اور کی حکمرانی مانتا تھا۔ سورۂ المؤمن آیات ۲۸ تا ۳۴ اور سورۂ زخرف آیت  ۵۳ کو غور سے دیکھیے۔ یہ آیتیں اس بات کی شہادت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی ہستی سے اُس کو انکار نہ تھا۔ البتہ جس چیز کو ماننے کے لیے وہ تیار نہ تھا وہ یہ تھی کہ اس کی سیاسی خدائی میں اللہ کا کوئی دخل ہو اور اللہ کا کوئی رسُول آکر اُس پر حکم چلائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، القصص، حاشیہ ۵۳)۔