اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۲۳

یعنی دنیا کی ہر شے جیسی کچھ بھی بنی ہوئی ہے ، اُسی کے بنانے سے بنی ہے۔ ہر چیز کو جو بناوٹ ، جو شکل وصورت ، جو قوت و صلاحیت ، اور جو صفت و خاصیت حاصل ہے ، اُسی کے عطیے اور بخشش کی بدولت حاصل ہے۔ ہاتھ کو دنیا میں اپنا کام کرنے کے لیے جس ساخت کی ضرورت تھی وہ اس کو دی ، اور پاؤں کو جو مناسب ترین ساخت درکار تھی وہ اس کو بخشی۔ انسان، حیوان ، نباتات، جمادات، ہوا، پانی، روشنی، ہر ایک چیز کو اس نے وہ صورتِ خاص عطا کی ہے جو اسے کائنات میں اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک انجام دینے کے لیے مطلوب ہے۔
پھر اس نے ایسا نہیں کیا کہ ہر چیز کو اس کی مخصوص بناوٹ دے کر یونہی چھوڑ دیا ہو۔ بلکہ اس کے بعد وہی ان سب چیزوں کی رہنمائی بھی کرتا ہے۔ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسے اپنی ساخت سے کام لینے اور اپنے مقصدِ تخلیق کو پورا کرنے کا طریقہ اس نے نہ سکھایا  ہو ۔ کان کو سننا اور آنکھ کو دیکھنا  اُسی نے سکھایا ہے۔ مچھلی کو تیرنا اور چڑیا کو اُڑنا اسی کی تعلیم سے آیا ہے۔ درخت کو پھیل پھول دینے اور زمین  کو نباتات اگانے کی ہدایت  اسی نے دی ہے ۔ غرض وہ ساری کائنات اور اس کی ہر چیز کا صرف خالق ہی نہیں، ہادی اور معلّم بھی ہے۔
اِس بے نظیر جامع و مختصر جملے میں حضرت موسیٰ ؑ  نے صرف یہی نہیں بتایا کہ ان کا ربّ کون ہے، بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ وہ کیوں ربّ ہے اور کس لیے اُس کے سوا کسی اور کو ربّ نہیں مانا جا سکتا۔ دعوے کے ساتھ اس کی دلیل بھی اسی چھوٹے سے فقرے میں آگئی ہے۔ ظاہر ہے کہ جب فرعون اور اس کی رعایا کا ہر فرد اپنے وجودِ خاص کے لیے اللہ کا ممنون ِ احسان ہے ، اور جب ان میں سے کوئی ایک لمحہ کے لیے زندہ تک نہیں رہ سکتا جب تک اس کا دل اور اس کے پھیپھڑے اور اس کا معدہ و جگر اللہ کی دی ہوئی ہدایت سے اپنا کام نہ کیے چلے جائیں ، تو فرعون کا یہ دعویٰ کہ وہ لوگوں کا ربّ ہے ، اور لوگوں کا یہ ماننا کہ وہ واقعی ان کا ربّ ہے، ایک حماقت اور ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔
مزید براں، اِسی ذرا سے فقرے میں حضرت موسیٰ ؑ نے اشارۃً رسالت کی دلیل بھی پیش کر دی جس کے ماننے سے فرعون کو  انکار تھا۔ ان کے دلیل میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ خدا جو تمام کائنات کا ہادی ہے، اور جو ہر چیز کو اس کی حالت اور ضرورت کے مطابق ہدایت دے رہا ہے، اس کے عالمگیر  منصبِ ہدایت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کو شعوری زندگی کے لیے بھی رہنمائی کا انتظام کرے۔ اور انسان کی شعوری زندگی  کے لیے رہنمائی کی وہ شکل موزون نہیں ہو سکتی جو مچھلی اور مرغی کی رہنمائی کے لیے موزوں ہے۔ اس کی موزوں ترین چکل یہ ہے کہ ایک ذی شعور انسان اس کی طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہو اور وہ ان کی عقل و شعور کو اپیل کر کے انہیں سیدھا راستہ بتائے۔