اندازِ کلام سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ کا جواب”نہ بھُولتا ہے“ پر ختم ہو گیا، اوریہاں سے آخر پیراگراف تک کی پوری عبارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور ِ شرح و تذکیر ارشاد ہوئی ہے۔ قرآں میں اس طرح کی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ کسی گزرے ہوئے یا آئندہ پیش آنے والے واقعے کو بیان کرتے ہوئے جب کسی شخص کا کوئی قول نقل کیا جاتا ہے ، تو اس کے بعد متصلاً چند فقرے وعظ و پند، یا شرح و تفسیر، یا تفصیل و توضیح کے طور پر مزید ارشاد فرمائے جاتے ہیں اور صرف اندازِ کلام سے پتہ چل جاتا ہے کہ یہ اس شخص کا قول نہیں ہے جس کا پہلے ذکر ہو رہا تھا، بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنا قول ہے۔ |