اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۵۳

اِس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر کار ایک رات مقرر فرمادی جس میں تمام اسرائیلی اور غیر اسرائیلی مسلمانوں کو  ( جن کے لیے ” میرے بندوں“  کا جامع لفظ استعمال کیا گیا ہے) مصر کے ہر حصّے سے ہجرت کے لیے نِکل پڑنا تھا۔ یہ سب لوگ ایک طے شدہ مقام پر جمع ہو کر ایک قافلے کی صورت میں روانہ ہو گئے۔ اُس زمانے میں نہر سویز موجود نہ تھی۔ بحر احمر سے بحر روم (میڈیٹرینین) تک کا پورا علاقہ کھُلا ہوا تھا۔ مگر اس علاقے کے تمام راستوں پر فوجی چھاؤنیاں تھیں جن سے بخیریت نہیں گزرا جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت موسیٰ نے بحر احمر کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا۔ غالبًا ان کا خیال یہ تھا کہ سمندر کے کنارے کنارے چل کر جزیرہ نمائے سینا  کی طرف نکل جائیں۔ لیکن اُدھر سے فرعون ایک لشکرعظیم لے کر تعاقُب کرتا ہوا ٹھیک اس موقع پر آپہنچا جبکہ یہ قافلہ ابھی سمندر کے ساحل ہی پر تھا۔ سورۂ شعراء میں بیان ہُوا ہے کہ مہاجرین کا قافلہ لشکر ِ فرعون اور سمندر کے درمیان بالکل  گھِر چکا تھا۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو حکم دیا کہ  اِضْرِبْ بعَصَاکَ الْبَحْرَ، ”اپنا عصا سمندر پر مار“ فَا نْفَلَقَ فَکَانَ کُلُّ فِرْقٍ کَا اطَّوْدِ الْعَظیْمِ، فوراً سمندر پھٹ گیا  اور اس کا ہر ٹکڑا ایک بڑے ٹیلے کی طرح کھڑا ہو گیا ۔“ اور بیچ میں صرف یہی نہیں کہ قافلے کے گزرنے کے لیے راستہ نِکل آیا، بلکہ بیچ کا یہ حصّہ، اوپر کی آیت کے مطابق خشک ہو کر سوکھی سڑک کی طرح بن گیا۔ یہ صاف اور صریح معجزے کا بیان ہے اور اس سے ان لوگوں کے بیان کی غلطی واضح ہو جاتی ہے جو کہتے ہیں کہ ہوا کے طوفان یا جوار بھاٹے کی وجہ سے سمندر ہٹ گیا تھا۔ اس طرح جو پانی ہٹتا ہے وہ دونوں طرف ٹیلوں کی صورت میں کھڑا  نہیں ہوجاتا ، اور بیچ  کا حصہ سوکھ کر سڑک کی طرح نہیں بن جاتا ( مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم الشعراء حاشیہ نمبر ۴۷)۔