اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر٦۲

اس فقرے  سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم کو راستے ہی میں چھوڑ کر  حضرت موسیٰ اپنے ربّ کی ملاقات کے شوق میں آگے چلے گئے تھے ۔ طور کی جانبِ اَیمن میں، جہاں کا وعدہ بنی اسرائیل سے کیا گیا تھا، ابھی قافلہ پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضرت موسیٰ اکیلے روانہ ہو گئے اور حاضری دے دی۔ اُس موقع پر جو معاملات خدا اور بندے کے درمیان ہوئے ان کی تفصیلات سورۂ اعراف رکوع ۱۷ میں درج ہیں۔ حضرت موسیٰ کا دیدارِ الہٰی کی استدعا کرنا اور اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ تُو مجھے نہیں دیکھ سکتا، پھر اللہ کا ایک پہاڑ پر ذرا سی تجلّی فرما کر اسے ریزہ ریزہ کر دینا اور حضرت موسیٰ کا بےہوش ہو کر گر پڑنا، اس کے بعد پتھر کی تختیوں پر لکھے ہوئے احکام عطا ہونا ،یہ سب اسی وقت کے واقعات ہیں۔ یہاں ان واقعات کا صرف وہ حصّہ بیان کیا جا رہا ہے جو بنی اسرائیل کی گو سالہ پرستی سے متعلق ہے۔ اس کے بیان سے مقصود کفارِ مکہ کو یہ بتانا ہے کہ ایک قوم میں بُت پرستی کا آغاز کس طرح ہوا کرتا ہے اور اللہ کے نبی اس فتنے کو اپنی قوم میں سر اُٹھاتے دیکھ کر کیسے بے تاب ہو جا یا کرتے ہیں۔