اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر٦۳

“یہ اس شخص کا نام نہیں ہے، بلکہ یائے نسبتی کی صریح علامت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بہرحال کوئی نہ کوئی  نسبت ہی ہے، خواہ قبیلے کی طرف ہو یا نسل کی طرف یا مقام کی طرف۔ پھر قرآن جس طرح  السامری کہہ کر اس کا ذکر کر رہا ہے اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں سامری قبیلے یا نسل یا مقام کے بہت سے لوگ موجود تھے جن میں سے ایک خاص سامری وہ شخص تھا جس نے بنی اسرائیل میں سنہری بچھڑے کی پرستش پھیلائی۔ اس سے زیادہ کوئی تشریح قرآن کے اِس مقام کی تفسیر کے لیے فی الحقیقت درکار نہیں ہے۔ لیکن یہ مقام اُن اہم مقامات میں سے ہے جہاں عیسائی مشنریوں اور خصوصاً مغربی مستشرقین نے قرآن پر حرف گیری کی حد کر دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ  ، معاذ اللہ ، قرآن کے مصنف کی جہالت کا صریح ثبوت ہے، اس لیے کہ دولتِ اسرائیل کا دارالسلطنت”سامریہ“ اِس واقعہ کے کئی صدی بعد سن ۹۲۵ ق م  کے قریب زمانے میں تعمیر ہو ا، پھر اس کے بھی کئی صدی بعد اسرائیلیوں اور غیر اسرائیلیوں کی وہ مخلوط نسل پیدا ہوئی جس نے ”سامریوں“ کے نام سے شہرت پائی۔ اُن کا خیال ہے کہ ان سامریوں میں چونکہ دوسری مشرکانہ بدعات کے ساتھ ساتھ سنہری بچھڑے کی پرستش کا رواج بھی تھا، اور یہودیوں کے ذریعہ محمد  (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اس بات کی سُن گُن  پالی ہو گی ، اس لیے اُنہوں نے لے  جا کر اس کا تعلق حضرتت موسیٰ کے عہد سے جوڑ دیا اوریہ قصہ تصنیف کر ڈالا کہ وہاں سنہری بچھڑے کی پرستش رائج کرنے والا ایک سامری شخص تھا۔ اِسی طرح کی باتیں اِن لوگوں نے ہامان کے معاملہ میں بنائی ہیں جسے قرآن فرعون کے وزیر کی حیثیت سے پیش کرتا ہے ، اور عیسائی مشنری اور مستشرقین اسے اخسو یرس (شاہ ایران) کے درباری امیر ”ہامان“ سے لے جا کر ملا دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے مصنف کی جہالت کا ایک اور ثبوت ہے ۔ شاید ان مدعیانِ علم و تحقیق کا گمان یہ ہے کہ قدیم زمانے میں ایک نام کا ایک ہی شخص یا قبیلہ یا مقام ہُوا کرتا تھا اور ایک نام کے دو یا زائد اشخاص یا قبیلہ و مقام ہونے کا قطعًا کوئی امکان نہ تھا۔ حالانکہ سُمیری قدیم تاریخ کی ایک نہایت مشہور قوم تھی جو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے سور میں عراق اور اس کے آس پاس کے علاقوں پر چھائی ہوئی تھی ، اور اس بات کا بہت امکان ہے کہ حضرت موسیٰ کے عہد میں اس قوم کے ، یا اس کی کسی شاخ کے لوگ مصر میں سامری کہلاتے ہوں۔ پھر خود اس سامریہ کی اصل کو بھی دیکھ لیجیے  جس کی نسبت سے شمالی فلسطین کے لوگ بعد میں سامری کہلانے لگے۔  بائیبل  کا بیان ہے کہ دولتِ اسرائیل کے فرمانروا اعمری نے ایک شخص”سمر“ نامی  سے وہ پہاڑ خریدا تھا جس پر اس نے بعد میں اپنا دار السلطنت تعمیر کیا۔ اور چونکہ پہاڑ کے سابق مالک کا نام سمر تھا اس لیے اس شہر کا نام سامریہ رکھا گیا (سلاطین ۱، باب ۱۶ – آیت ۲۴)۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ سامریہ کے وجود میں آنے سےپہلے ”سمر“ نام کے اشخاص پائے جاتے تھے اور ان سے نسبت پا کر ان کی نسل یا قبیلے کا نام سامری، اور مقامات کا نام سامریہ ہونا کم از کم ممکن ضرور تھا۔