اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر٦۷

یہ اُن لوگوں کا عذر تھا جو سامری کے فتنے میں مبتلا ہوئے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ ہم نے زیورات پھینک دیے تھے۔ نہ ہماری کوئی نیت بچھڑا بنانے کی تھی ، نہ ہمیں معلوم تھا کہ کیا بننے والا ہے۔ اس کے بعد جو معاملہ پیش آیا وہ تھا ہی کچھ ایسا کہ اسے دیکھ کر ہم بے اختیار شرک میں مبتلا ہو گئے۔
                ”لوگوں کے زیورات کے بوجھ سے ہم لد گئے تھے“،  اس کا سیدھا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارے مردوں اور عورتوں نے مصر کی رسموں کے مطابق جو بھاری بھاری زیورات  پہن رکھے تھے وہ اس صحرا نوردی میں ہم  پر بار ہو گئے تھے اور ہم پریشان تھے کہ اس بوجھ کو کہاں تک لادے پھریں۔ لیکن بائیبل کا بیان ہے کہ یہ زیورات مصر سے چلتے وقت ہر اسرائیلی گھر انے کی عورتوں اور مردوں نے اپنے مصری پڑوسی سے مانگے کو لے لیے  تھے اور اِس طرح ہر ایک اپنے پڑوسی کو لوٹ کر راتوں رات ”ہجرت“ کے لیے چل کھڑا ہوا تھا۔ یہ اخلاقی کارنامہ صرف اسی حد تک نہ تھا کہ ہر اسرائیلی نے بطور خود اسے انجام دیا ہو، بلکہ یہ کارِ خیر اللہ کے نبی حضرت موسیٰ نے ان کو سکھایا تھا ، اور نبی کو بھی اس کی ہدایت خود اللہ میاں نے دی تھی۔ بائیبل کی کتاب خروج میں ارشاد ہو تا ہے:
”خدا نے موسیٰ سے کہا ۔۔۔۔۔۔ جا کر اسرائیلی بزرگوں کو ایک جگہ جمع کر اور اُن کو کہہ ۔۔۔۔۔۔ کہ جب تم نکلو گے تو خالی ہاتھ نہ نکلو گے بلکہ تمہاری ایک ایک عورت اپنی پڑوسن سے اور اپنے اپنے گھر کی مہمان سے سونے پر چاندی کے زیور اور لباس مانگ لے گی۔ ان کو تم اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کو پہناؤ گے اور مصریوں کو لوٹ لو گے“۔ (باب ۳ ۔ آیت  ۱۴ تا ۲۲)
”اور خدا وند نے موسیٰ سے کہا ۔۔۔۔۔۔ سو اب تُو لوگوں کو کان میں یہ بات ڈال دے کہ اُن میں سے ہر شخص اپنے پڑوسی اور ہر عورت اپنی پڑوسن سے سونے چاندی کے زیور لے ، اور خداوند نے ان لوگوں پر مصریوں کو مہربان کر دیا“(باب ۱۱ ۔ آیت ۲ – ۳)
”اور بنی اسرائیل نے موسیٰ کےکہنے کے موافق یہ بھی کیا کہ مصریوں سے سونے چاندی کے زیور اور کپڑے مانگ لیے اور خداوند نے اِن لوگوں کو مصریوں کی نگاہ میں ایسی عزّت بخشی کہ جو کچھ اِنہوں نے مانگا اُنہوں نے دیا، سو انہوں نے مصریوں کو لوٹ لیا“۔ (باب ۱۲ – آیت ۳۵ – ۳۶)
افسوس ہے کہ ہمارے مفسرین نے بھی قرآن کی اِس آیت کی تفسیر میں بنی اسرائیل کی اس روایت کو آنکھیں بند کر کے نقل کر دیا ہے اور  ان کی اس غلطی سے مسلمانوں میں بھی یہ خیال پھیل گیا ہے کہ زیورات کا یہ بوجھ اِسی لُوٹ کا بوجھ تھا۔
آیت کے دوسرے ٹکڑے ”اور ہم نے بس ان کوپھینک دیا تھا“ کا مطلب ہماری سمجھ میں یہ آتا ہے کہ جب اپنے زیورات کو لادے پھرنے سے لوگ تنگ آگئے ہوں گے تو باہم مشورے سے یہ بات قرار پائی ہوگی کہ سب کے زیورات ایک جگہ جمع کر لیے جائیں ، اور یہ نوٹ کر لیا جائے کہ کس کا کتنا  سونا اور کس کی کتنی چاندی ہے، پھر اِن کو گلا کر اینٹوں اور سلاخوں کی شکل میں ڈھال لیا جائے ، تاکہ قوم کے مجموعی سامان کے ساتھ گدھوں اور بیلوں پر ان کو لاد کر چلا جا سکے۔ چنانچہ اس قرار داد کے مطابق ہر شخص اپنے زیورات لا لا کر ڈھیر میں پھینکتا چلا گیا ہو گا۔