اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر٦۸

یہاں سے پیراگراف کے آخر تک کی عبارت پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ قوم کا جواب”پھینک دیا تھا“ پر ختم ہو گیا ہے اور بعد کی یہ تفصیل اللہ تعالیٰ خود بتا رہا ہے۔ اس سے صورتِ واقعہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ لوگ پیش آنے والے فتنے سے بےخبر ، اپنے اپنے زیور لا لا کر ڈھیر کر تے چلے گئے، اور سامری صاحب بھی ان میں شامل تھے۔ بعد میں زیور گلانے کی خدمت سامری صاحب نے اپنے ذمے لے لی ، اور کچھ ایسی چال چلی کہ سونے کی اینٹیں یا سلاخیں بنانے کے بجائے ایک بچھڑے کی مورت بھٹی سے برآمد ہوئی جس میں سے بیل کی سی آواز نِکلتی تھی۔ اِس طرح سامری نے قوم کو دھوکا دیا کہ میں تو صرف سونا گلانے کا قصور وار ہوں، یہ تمہارا خدا آپ ہی اس شکل میں جلوہ فرما ہو گیا ہے۔