اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۷۲

حضرت ہارون کے اس جواب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ قوم کا مجتمع  رہنا اس کے راہِ راست پر رہنے سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے، اور اتحاد چاہے وہ  شرک ہی کیوں نہ ہو، افتراق سے بہتر ہے خواہ اس کی بنا حق اور باطل ہی کا اختلاف ہو۔ اس آیت کا یہ مطلب اگر کوئی شخص لے گا تو قرآن سے ہدایت کے بجائے گمراہی اخذ کرے گا۔ حضرت ہارون کی پوری بات سمجھنے کے لیے اس آیت کو سورۂ اعراف کی آیت ۱۵۰ کے ساتھ ملا کر پڑھنا چاہیے۔ وہاں وہ فرماتے ہیں کہ  اِبْنَ اُمَّ اِنَّ الْقَوْمَ ا سْتَضْعَفُوْ نِیْ وَکَادُوْا یَقْتُلُوْ نَنِیْ زصلے   فَلَا تُشْمِتْ بِیَ الْاَعْدَآ ءَ وَلَا تَجْعَلْنِیْ  مَعَ الْقَوْ مِ الظّٰلِمِیْنَ۔” میری ماں کے بیٹے، ان لوگوں نے مجھے دبا لیا اور قریب تھا کہ مجھے مار ڈالتے ۔ پس تُو دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دے او ر اس ظالم گروہ میں مجھے شمار نہ کر “۔  اب ان دونوں آیتوں کو جمع کر کے دیکھیے تو صورت واقعہ کی یہ تصویر سامنے آتی ہے کہ حضرت ہارون نے لوگوں کو اس گمراہی سے روکنے کی پوری کوشش کی ، مگر انہوں نے آنجناب کے خلاف سخت فساد کھڑا کر دیا اور آپ کو مار ڈالنے پر تُل گئے۔ مجبوراً آپ اس اندیشے سے خاموش ہو گئے کہ کہیں حضرت موسیٰ کے آنے سے پہلے یہاں خانہ جنگی برپا نہ ہو جائے ، اور وہ بعد میں آکر شکایت کریں کہ تم اگر اس صورت ِ حال سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تھے تو تم  نے معاملات کو اس حد تک کیوں بگڑنے دیا ، میرے آنے کا انتظار کیوں نہ کیا۔ سورۂ اعراف والی آیت کے آخری فقرے سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ قوم میں دونوں بھائیوں کے دشمنوں کی ایک تعداد موجود تھی۔