اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۷۳

اس آیت کی تفسیر میں دو گروہوں کی طرف سے عجیب کھینچ تان کی گئی ہے۔
ایک گروہ ، جس میں قدیم مفسرین اور قدیم طرز کے مفسرین کی بڑی اکثریت شامل ہے ، اس کا یہ مطلب بیان کرتا ہے کہ ”سامری نے رسول یعنی حضرت جبریل کو گزرتے ہوئے دیکھ لیا تھا، اور ان کے نقشِ قدم سے ایک مٹھی بھر مٹی اُٹھا لی تھی ، اور یہ اسی مٹی کی کرامت تھی کہ جب اسے بچھڑے کے بُت پر ڈالا گیا تو ااس میں زندگی پیدا ہو گئی  اور جیتے جاگتے بچھڑے کی سی آواز نکلنے لگی“۔ حالانکہ قرآن یہ نہیں کہہ  رہا کہ فی الواقع ایسا ہوا تھا۔ وہ صرف یہ کہہ رہا ہے کہ حضرت موسیٰ کی باز پرس کے جواب میں سامری نے یہ بات بنائی۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ مفسرین اس کو ایک امر واقعی ، اور قرآن کی بیان کردہ حقیقت کیسے سمجھ بیٹھے۔
دوسرا گروہ سامری کے قول کو ایک اور ہی معنی پہناتا ہے۔ اس کی تاویل کے مطابق سامری نے دراصل یہ کہا تھا کہ ”مجھے رسول، یعنی حضرت موسیٰ میں، یا اُن کے دین  میں وہ کمزوری نظر آئی جو دوسروں کو نظر نہ آئی۔ اس لیے میں نے ایک حد تک تو اُس کے نقشِ قدم کی پیروی کی ، مگر بعد میں اسے چھوڑ دیا“۔  یہ تاویل غالباً سب سے پہلے ابو مسلم اصفہانی کو سوجھی تھی ، پھر امام رازی نےا س کو اپنی تفسیر میں نقل کر کے اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا، اور اب طرزِ جدید کے مفسرین بالعموم اسی کو ترجیح دے رہے ہیں ۔ لیکن یہ حضراتت اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ قرآن معموں اور پہیلیوں کی زبان میں نازل نہیں ہوا ہے بلکہ صاف اور عام فہم عربی مبین میں نازل ہوا ہے جس کو ایک عام عرب اپنی زبان کے معروف محاورے کے مطابق سمجھ سکے۔ کوئی شخص جو عربی زبان کے معروف  محاورے اور روز مرّہ سے واقف ہو، کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ سامری کے اس مافی الضمیر کو ادا کرنے کے لیے عربی مبین میں وہ الفاظ استعمال کیے جائیں گے جو آیت ِ زیر تفسیر میں پائے جاتے ہیں۔ نہ ایک عام عرب ان الفاظ کو سُن کر کبھی وہ مطلب لے سکتا ہے جو یہ حضرات  بیان کر رہے ہیں۔ لغت کی کتابوں میں سے کسی لفظ کے وہ مختلف مفہومات تلاش کر لینا جو مختلف محاوروں میں  اس سے مراد لیےجاتے ہوں ، اور ان میں سے کسی مفہوم کو لا کر ایک ایسی عبارت میں چسپاں کر دینا جہاں ایک عام عرب اس لفظ کو ہر گز  اس مفہوم میں استعمال نہ کرے گا ، زباں دانی تو نہیں ہو سکتا، البتہ سخن سازی کا کرتب  ضرور مانا جا سکتا ہے ۔ اس  قسم کے کرتب فرہنگ آصفیہ ہاتھ میں لے کر اگر کوئی شخص خود اِن حضرات کی اردو تحریروں میں ، یا آکسفورڈ ڈکشنری لے کر ان کی انگریزی تحریروں میں دکھانےشروع کر دے ، تو شاید اپنے کلام کی دوچار ہی تاویلیں سُن کر یہ حضرات چیخ اُٹھیں ۔ بالعموم قرآن میں ایسی تاویلیں اُس وقت کی جاتی ہے جبکہ ایک شخص کسی آیت کے صاف اور سیدھے مطلب کو دیکھ کر اپنی دانست میں یہ سمجھتا ہے کہ یہاں تو اللہ میاں سے بڑی بے احتیاطی ہو گئی، لاؤ میں ان کی بات اس طرح بنا دوں کہ ان کی غلطی کا پردہ ڈھک جائے اور لوگوں کو ان پر ہنسنے کا موقع نہ ملے۔
 اس طرزِ فکر کو چھوڑ کر جو شخص بھی اِس سلسلۂ کلام میں اس آیت کو پڑھے گا وہ آسانی کے ساتھ یہ سمجھ لے گا کہ سامری ایک فتنہ پرداز شخص تھا جس نے خوب سوچ سمجھ کر ایک زبردست مکرو فریب کی اسکیم تیار کی تھی۔ اس نے صرف یہی نہیں کیا کہ سونے کا بچھڑا بنا کر اس میں کسی تدبیر سے بچھڑے کی سی آواز پیدا کر دی اور ساری قوم کے جاہل و نادان لوگوں کو دھوکے میں ڈال دیا۔ بلکہ اس پر مزید یہ جسارت بھی کی کہ خود حضرت موسیٰ کے سامنے ایک پُر فریب داستان گھڑ کر رکھ دی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ مجھے وہ کچھ نظر آیا جو دوسروں کو نظر نہ آتا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ افسانہ بھی گھڑ دیا کہ رسول کے نقشِ قدم کی ایک مٹھی بھر  مٹی سے یہ کرامت صادر ہوئی ہے ۔ رسول سے مراد ممکن  ہے کہ جبریل ہی ہوں، جیسا کہ قدیم مفسرین نے سمجھا ہے ۔ لیکن اگریہ سمجھا جائے کہ اس نے رسول کا لفظ خود حضرت موسیٰ کے لیے استعمال کیا تھا ، تو یہ اس کی ایک اور مکاری تھی۔ وہ اس طرح حضرت موسیٰ کوذہنی رشوت دینی چاہتا تھا ، تاکہ وہ اسے اپنے نقشِ قدم کی مٹی کا کرشمہ  سمجھ کر پھُول جائیں اور اپنی مزید کرامتوں کا اشتہار دینے کے لیے سامری کی خدمات مستقل طور پر حاصل کر لیں۔ قرآن اس سارے معاملے کو سامری کے فریب ہی کی حیثیت سے پیش کر رہا ہے، اپنی طرف سے بطور واقعہ بیان نہیں کر رہا ہے کہ اس سے کوئی قباحت لازم آتی ہو اور لغت کی کتابوں سے مدد لے کر خواہ مخواہ کی سخن سازی کرنی پڑے۔ بلکہ بعد کے فقرے میں حضرت موسیٰ نے جس طرح اس کو پھٹکار ا ہے  اور اس کے لیے سزا تجویز کی ہے اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اس کے گھڑے ہوئے اس پُر فریب افسانے کو سنتے ہی انہوں نے اس کے منہ پر مار دیا۔