اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۸۲

یہ بھی جملۂ معترضہ ہے جو دورانِ تقریر میں کسی سامع کے سوال پر ارشاد ہوا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ  جس وقت یہ سُورت ایک الہامی تقریر کے انداز میں سُنائی جا رہی ہوگی اس وقت کسی نے مذاق اُڑانے کے لیےیہ سوال اُٹھایا ہو گا کہ قیامت کا جو نقشہ آپ کھینچ رہے ہیں اُس سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کسی ہموار میدان میں بھاگے  چلے جا رہے ہوں گے۔ آخر یہ بڑے بڑے پہاڑ اس وقت کہاں چلے جائیں گے ؟ اس سوال کا موقع سمجھنے کے لیے اس ماحول کو نگاہ میں رکھیے جس میں یہ تقریر کی جارہی تھی۔ مکہ جس مقام  پر واقع ہے اس کی حالت ایک حوض کی سی ہے جس کے چاروں طرف اُونچے اُونچے پہاڑ ہیں۔ سائل نے انہی پہاڑوں کی طرف اشارہ کر کے یہ بات کہی ہو گی ۔ اور وحی کے اشارہ سے جواب برملا اسی وقت یہ دے دیا گیا کہ یہ پہاڑ کوُٹ پیٹ کر اس طرح ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے جیسے ریت کے ذرّے ، اور ان کو دُھول کی طرح اُڑا کر ساری زمین  ایک ایسا ہموار  میدان بنا دی جائے گی کہ اس میں کوئی اونچ نیچ نہ رہے گی، کوئی نشیب و فراز نہ ہوگا۔ اس کیحالت ایک ایسے صاف فرش کی سی ہو گی جس میں ذرا سا بَل اور کوئی معمولی سی سلوٹ  تک نہ ہو۔