اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۹١

فَتَعٰلَی اللّٰہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ  پر تقریر ختم ہو چکی تھی۔ اس کے بعد رخصت ہوتے ہوئے فرشتہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بات پر خبردار کرتا ہے جو وحی نازل کر نے کے دَوران میں اس کے مشاہدے میں آئی۔ بیچ میں ٹوکنا مناسب  نہ سمجھا گیا ، اس لیے پیغام کی ترسیل مکمل کرنے کے بعد اب وہ اس کا نوٹس لے رہا ہے۔ بات کیا تھی جس پر  یہ تنبیہ کی گئی، اسے خود تنبیہ کے الفاظ ہی ظاہر کر رہے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی کا پیغام وصول کرنے کے دوران میں اسے یاد کرنے اور زبان سے دُہرانے کی کوشش فرما رہے ہوں گے۔ اس کوشش کی وجہ سے آپ کی توجہ بار بار  بٹ جاتی ہو گی۔ سلسلۂ اخذِ وحی میں خلل واقع ہو رہا ہوگا۔ پیغام کی سماعت پر توجہ پوری طرح مرکوز نہ رہی ہوگی۔ اس کیفیت کو دیکھ کر یہ ضرورت محسُوس کی گئی کہ آپ کو پیغام وحی  وصول کر نے کا صحیح طریقہ  سمجھا یا جائے ، اور بیچ بیچ میں یاد کرنے کی کوشش جو آپ کرتے ہیں اس سے منع کر دیا جائے۔
اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۂ   طٰہٰ کا یہ حصّہ ابتدائی زمانے کی وحیوں میں سے ہے۔ ابتدائی زمانہ  میں جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو ابھی اخزِ وحی کی عادت اچھی طرح نہ پڑی تھی، آپ  سے کئی مرتبہ یہ فعل سرزد ہو ا ہے اور ہر موقع پر کوئی نہ کوئی فقرہ اِس پر آپ کو متنبہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سورۂ قیامہ کے نزول کے موقع پر بھی یہی ہُوا تھا اور اس پر سلسلہ ٔ کلام کو توڑ کر آپ کو ٹوکا گیا کہ  لَا تُحَرِّکْ بِہٖ لِسَا نَکَ لِتَجْعَلَ بِہٖ، اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہٗ وَ قُرْاٰ نَہٗ، فَاِذَا قَرَ اْنٰہٗ فَا تَّبِعْ قُرْاٰنَہٗ، ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَہٗ،” اسے یاد کرنے کی جلدی میں اپنی زبان کو بار بار حرکت نہ دو، اِسے یاد کرادینا  اور پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے، لہٰذا جب ہم اسے سنا رہے ہوں تو غور سے سنتے رہو، پھر اِس کا مطلب سمجھا  دینا بھی ہمارے ہی ذمہ ہے۔“ سورۂ اعلیٰ میں بھی آپ کو اطمینان دلایا گیا ہے کہ ہم اسے پڑھوا دیں گے اور آپ بھُولیں گے نہیں، سَنُقْرِ ئُکَ فَلَا تَنْسٰی۔ بعد میں جب آپ کو پیغامات وحی وصول کرنے کی اچھی مہارت حاصل ہو گئی تو اس طرح کی کیفیا ت آپ پر طاری ہونی بند ہوگئیں۔ اسی وجہ سے بعد کی سورتوں میں ایسی کوئی تنبیہ ہمیں نہیں ملتی۔