اس رکوع کو چھاپیں

سورة طٰہٰ حاشیہ نمبر۹۲

جیسا کہ ابھی بتایا جا چکا ہے ، یہاں سے ایک الگ تقریر شروع ہوتی ہے جو اغلباً اوپر والی تقریر کے بعد کسی وقت نازل ہوئی ہے اور مضمون کی مناسبت سے اُس کے ساتھ ملا کر ایک ہی سورہ میں جمع کر دی گئی ہے ۔ مضمون کی مناسبتیں متعدد ہیں۔ مثلاً یہ کہ:
(۱) وہ بھُولا ہوا سبق جسے قرآن یاد دلا رہا ہے وہی سبق ہے جو نوعِ انسانی کو اس کی پیدائش کے آغاز میں دیا گیا تحا اور جسے یاد دلاتے  رہنے کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا تھا ، اور جسے یاد دلانے کے لیے قرآن سے پہلے بھی بار بار ”ذکر“ آتے رہے ہیں۔
(۲) انسان اُس سبق کو بار بار شیطان کے بہکانے سے بھولتا ہے، اور یہ کمزوری وہ آغازِ آفرینش سے برابر دکھا رہا ہے ۔ سب سے پہلی بھُول اُس کے اوّلین ماں باپ کو لاحق ہوئی تھی اور اس کے بعد سے اس کا سلسلہ برابر جاری ہے، اِسی لیے انسان اس کا محتاج ہے کہ اس کو پیہم یاددہانی کرائی جاتی رہے۔
(۳) یہ بات کہ انسان کی سعادت و شقاوت کا انحصار بالکل اُس برتاؤ پر ہے جو اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اِس ”ذِکر“ کے ساتھ وہ کرے گا ، آغازِ آفرینش ہی میں صاف صاف بتا دی گئی تھی۔ آج یہ کوئی نئی بات نہیں کہی جا رہی ہے کہ اس کی پیروی کر و گے تو گمراہی و بدبختی سے محفوظ رہو گے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں مبتلا ئے مصیبت ہو گے۔
(۴) ایک چیز ہے بھُول اور عزم کی کمی اور ارادے کی کمزوری جس کی وجہ سے انسان اپنے ازلی  دشمن ، شیطان کے بہکائے میں آجائے اور غلطی کر بیٹھے۔ اس کی معافی ہو سکتی ہے بشرطیکہ انسان غلطی کا احساس ہوتے ہی اپنے رویے کی اصلاح  کر لے اور انحراف چھوڑ کر اطاعت کی طرف پلٹ آئے۔ دوسری چیز ہے وہ سرکشی اور سرتابی اور کوب سوچ  سمجھ کر اللہ کے مقابلے میں شیطان کی بندگی جس کا ارتکاب فرعون اور سامری نے کیا۔ اِس چیز کے لیے معافی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس کا انجام وہی ہے جو فرعون اور سامری نے دیکھا اور یہ انجام  ہر وہ شخص دیکھے گا جو اس روش پر چلے گا۔