اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر١

مراد ہے قریب قیامت ۔ یعنی اب وہ وقت دُور نہیں ہے جب لوگوں کو اپنا  حساب دینے کے لیے اپنے رب کے آگے حاضر ہونا پڑے گا۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اس بات کی علامت ہے کہ نوع انسانی کی تاریخ اب اپنے آخری دَور میں داخل ہو رہی ہے ۔ اب وہ اپنے آغاز کی بہ نسبت اپنے انجام سے قریب تر ہے۔ آغاز اور وسط کے مرحلے گزر چکے ہیں اور آخری مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہی مضمون ہے جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا ہے۔ آپ ؐ نے اپنی دو انگلیاں کھڑی کر کے فرمایا   بُعِثتُ انا وَ السَّا عَۃُ کَھَا تَیْنِ ،” میں ایسے وقت پر مبعوث کیا گیا ہوں کہ میں اور قیامت اِن دو انگلیوں کی طرح ہیں۔“ یعنی میرے بعد بس قیامت ہی ہے۔ کسی اور نبی کی دعوت بیچ میں حائل نہیں ہے۔ سنبھلنا ہے تو میری دعوت پر سنبھل جا ؤ۔ کوئی اور ہادی اور بشیر و نذیر آنے والا نہیں ہے۔