اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۲۷

مشرکین فرشتوں کو دو وجوہ سے معبود بناتے تھے۔ ایک یہ کہ ان کے نزدیک وہ خدا کی اولاد تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ان کی پرستش (خوشامد) کر کے انہیں خا کے ہاں اپنا شفیع(سفارشی ) بنانا چاہتے تھے۔ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰؤُ لَآءِ شُفَعَآ ؤُ نَا عِنْدَاللہِ (یونس ، آیت ۱۸)۔ اور   مَا نَعْبُدُ ھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّ بُوْنَآ اِلَی اللہِ زُلْفًا  (الزمر، آیت ۳)۔  ان آیات میں دونوں وجوہ کی تردید کر دی گئی ہے۔
اِس جگہ یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ قرآن بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کرتے ہوئے اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ جنہیں تم شفیع قرار دیتے ہو وہ علم غیب نہیں رکھتے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اُن باتوں کو بھی جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہیں اور اُن باتوں کو بھی جو اُن سے اوجھل ہیں۔ اس سے یہ ذہن نشین کرنا مقصُود ہے کہ آخر ان کو سفارش کر نے کا مطلق اور غیر مشروط اختیار کیسے حاصل ہو سکتاہے جبکہ وہ ہر شخص کے اگلے پچھلے اور پوشیدہ و ظاہر حالات سے واقف نہیں ہیں ۔ اس لیے خوا ہ فرشتے ہوں یا انبیاء و صالحین ، ہر ایک  کا اختیار ِ شفا لازمًا اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کسی کے حق میں شفاعت کی اجازت دے۔ بطورِ خود ہر کس و ناکس کی شفاعت کر دینے کا کوئی بھی مجاز نہیں ہے۔ اور جب شفاعت سننا یا نہ سننا اور اسے قبول کرنا یا نہ کرنا  بالکل اللہ کی مرضی پر موقوف ہے تو ایسے بے اختیار شفیع اس قابل کب ہو سکتے ہیں کہ ان کے آگے سرِ نیاز جھکایا جائے اور دستِ سوال دراز کیا جائے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، طٰہٰ ، حاشیہ نمبر ۸۵ – ۸۶)۔