اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۵۹

یہ گویا حضرت ابراہیم کی منہ مانگی مراد تھی، کیونکہ وہ بھی  یہی چاہتے تھے کہ بات صرف پروہتوں اور پُجاریوں ہی کے سامنے نہ ہو بلکہ عام لوگ بھی موجود ہوں اور سب دیکھ لیں کہ یہ بُت جو اُن کے قاضی الحاجات بنا کر رکھے گئے ہیں کیسے بے بس ہیں اور خود یہ پروہت حضرات ان کو کیا سمجھتے ہیں۔ اِس طرح اِن پجاریوں سے بھی وہی حماقت سرزد ہوئی جو فرعون سے سرزد ہوئی تھی۔ اس نے بھی جادوگروں سے حضرت موسیٰ کا مقابلہ کرانے کے لیے ملک بھر کی خلقت جمع کرائی تھی اور اِنہوں نے بھی حضرت ابراہیم کا مقدمہ سننے کے لیے عوام کو اکٹھا کر لیا۔ وہاں حضرت موسیٰ کو سب  کے سامنے یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ جو کچھ وہ لائے ہیں وہ جادو نہیں  معجزہ ہے۔ اور یہاں حضرت ابراہیم کو ان کے دشمنوں نے آپ ہی یہ موقع فراہم کر دیا کہ وہ عوام کے سامنے اُن کے مکر و فریب کاطلسم توڑ دیں۔