اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۷۲

سورۂ سبا میں مزید تفصیل یہ ہے :  وَاَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْفِیْ السَّرْدِ،”اور ہم نے لوہے کو اس کے لیے نرم کر دیا  (اور اس کو ہدایت کی) کہ پوری پوری زرہیں بنا اور ٹھیک انداز ے سے کڑیاں جوڑ“۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو لوہے کے استعمال پر قدرت عطا کی تھی ، اور خاص طور پر جنگی اغراض کےلیے زرہ سازی کا طریقہ سکھایا تھا۔ موجودہ زمانے کی تاریخی واثری تحقیقات سے ان آیات کے معنی پر جو روشنی پڑتی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں لوہے کے استعمال کا دور ( Iron - Age ) سن ۱۲۰۰ اور سن ۱۰۰۰ ق م کے درمیان شروع ہوا ہے ، اور یہی حضرت داؤد کا زمانہ ہے۔ اوّل اوّل شام اور ایشیائے کوچک کو حِتّی قوم (Hittites ) کو جس کے عروج کا زمانہ سن ۲۰۰۰ ق م سے سن ۱۲۰۰ ق م تک رہا ہے ، لوہے کے پگھلانے اور تیار کرنے کا ایک پیچیدہ طریقہ معلوم ہو ا  اور وہ  شدت کے ساتھ اس کو دنیا بھر سے راز میں رکھے رہی۔ مگر اس طریقے سے جو لوہا تیار ہوتا تھا وہ سونے چاندی کی طرح اتنا قیمتی ہوتا تھا کہ عام استعمال میں نہ آسکتا تھا۔ بعد میں فِسِتِیوں نے یہ طریقہ معلوم کر لیا، اور وہ بھی اسے راز ہی میں رکھتے رہے۔ طالوت کی بادشاہی سے پہلے حِتّیوں اور فِلِستیوں نے بنی اسرائِل کو پیہم شکستیں دے کر جس طرح فلسطین سے تقریبًا بے دخل کر دیا تھا، بائیبل کے بیان کے مطابق اس کے وجوہ میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ یہ لوگ لوہے کی رتھیں استعمال کرتےتھے اور ان کے پاس دوسرے آہنی ہتھیا ر بھی تھے ( یشوع باب ۱۷ ۔ آیت ۱۶۔ قُضاۃ باب ۱ ۔ آیت ۱۹۔ باب ۴ ۔ آیت ۲ – ۳) سن ۱۰۲۰ ق م میں جب طالوت خدا کے حکم سے بنی اسرائیل کا فرمانروا ہوا تو اس نے پیہم شکستیں دے کر ان لوگوں سے فلسطین کا بڑا حصّہ واپس لے لیا، اور پھر حضرت داؤد (سن ۱۰۰۴ – سن ۹۶۵ ق م) نے نہ صرف فلسطین و شرق اُردُن، بلکہ شام کے بھی بڑے حصّے پر اسرائیلی سلطنت قائم کر دی۔ اس زمانہ میں آہن سازی  کا  وہ راز جو حتّیوں اور فلستیوں کے قبضے میں تھا، بے نقاب ہو گیا، اور صرف بے نقاب ہی نہ ہوا بلکہ آہن سازی کے ایسے طریقے بھی نکل آئے جن سے عام استعمال کے لیے لوہے کی سستی چیزیں تیار ہونے لگیں ۔ فلسطین کے جنوب میں اَدُوم کا علاقہ خام لوہے (Iron ore ) کی دولت سے مالا مال ہے،    اور حال میں آثار ِ قدیمہ کی جو کھُدائیاں اس علاقے میں ہوئی ہیں، ان میں بکثرت ایسی جگہوں کے آثار ملے ہیں جہاں لوہا پگھلانے کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔ عَقَبہ اور اَیلَہ سے متصل حضرت سلیمان کے زمانے کی بندر گاہ عِصیُون جابر کے آثار قدیمہ میں جو بھٹی ملی ہے اس کے معائنے سے اندازہ  کیا گیا ہے کہ اس میں بعض و ہ اصول استعمال کیے جاتے تھے جو آج جدید ترین زمانے کی (Blast Furnace ) میں استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ ایک قدرتی بات ہے کہ حضرت داؤد نے سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر اس جدید دریافت کو جنگی اغراض کے لیے استعمال کیا ہو گا، کیونکہ تھوڑی ہی مدّت پہلے آس پاس کی دُشمن قوموں نے اِسی لوہے کے ہتھیاروں سے اُن کی قوم پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تھا۔