اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۷۴

اس کی تفصیل سورۂ سبا میں یہ آئی ہے : وَلِسُلَیْمٰنَ الرِّیْحَ غُدُوُّھَا شَھْرٌ وَّ رَوَ احُھَا شَھْرٌ ، ”اورسلیمان کےلیے ہم نےہوا کو مسخر کر دیا تھا، ایک مہینے کی راہ تک اس کا چلنا صبح کو اور ایک مہینے کی راہ تک اُس کا چلنا شام کو۔“ پھر اس کی مزید تفصیل سورۂ ص میں یہ آتی ہے : فَسَخَّرْنَا لَہُ الرِّیْحَ تَجْرِیْ بِاَ مْرِہٖ رُخَآ ءً حَیْثُ یَشَآءُ ، ”پس ہم نے اس کے لیے ہوا کو مسخر کر دیا جو اس کے حکم سے بسہولت چلتی تھی جدھر وہ جانا چاہتا “۔ اس سے معلوم ہوا کہ ہوا کو حضرت سلیمان کے لیے اِس طرح تابع امر کر دیا گیا تھا کہ ان کی مملکت سے ایک مہینے کی راہ تک کے مقامات کا سفر بسہولت کیا جا سکتا تھا۔ جانے میں بھی ہمیشہ اُن کی مرضی کے مطابق بادِ موافق ملتی تھی اور واپسی پر بھی ۔ بائیبل اور جدید تاریخی تحقیقات سے اس مضمون پر جو روشنی پڑتی ہے  وہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے اپنے دَور سلطنت میں بہت بڑے پیمانے پر بحری تجارت کا سلسلہ شروع کیا تھا ۔ ایک طرف عِصیون جابر سے ان کے تجارتی جہاز بحر احمر میں یمن اور دوسرے جنوبی و مشرقی ممالک کی طرف جاتے تھے، اور دوسری طرف بحرِ روم کے بندرگاہوں سے ان بیڑہ (جسے بائیبل میں”ترسیسی بیڑہ“ کہا گیا ہے) مغربی ممالک کی طرف جایا کرتا تھا۔ عصیون جابر میں ان کے زمانے کی جو عظیم الشان بھٹی ملی ہے اس کے مقابلے میں کوئی بھٹی مغربی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں ابھی تک نہیں ملی۔ آثارِ قدیمہ کے ماہرین کا اندازہ ہے کہ یہاں اَدوم کے علاقۂ عَرَبَہ کی کانوں سے خام لوہا اور تانبا لایا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا  کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ جہاز سازی میں استعمال  کیا جاتا تھا اور اس بھٹی میں پگھلا کر اسے دوسرے کاموں کے علاوہ  جہاز سازی میں بھی استعمال  کیا جاتا تھا۔ اس سے قرآن مجید کی اُس آیت کے مفہوم پر روشنی پڑتی ہے جو سورۂ سبا میں حضرت سلیمان کے متعلق آئی ہے کہ   وَاَسَلْنَا لَہٗ عَیْنَ الْقِطْرِ” اور ہم نے اس کے لیے پگھلی ہوئی دھات کا چشمہ بہا دیا“۔ نیز اِس تاریخی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے یہ بات بھی سمجھ آجاتی ہے کہ حضرت سلیمان کے لیے ایک  مہینے کی راہ تک ہوا کی رفتار کو ”مسخر“کرنے کاکیا مطلب ہے۔ اُس زمانے میں بحری سفر کا انحصار  بادِ موافق ملنے پر تھا، اور اللہ تعالیٰ کا حضرت سلیمان پر یہ کرمِ خاص تھا کہ وہ ہمیشہ اُن کے دونوں بحری بیڑوں کو ان کی  مرضی کے مطابق ملتی تھی ۔ تاہم اگر ہوا پر حضرت سلیمان کو حکم چلانے کا بھی کوئی اقتدار دیا گیا ہو ، جیساکہ تَجْرِیْ بِاَمْرِہٖ، (اس کے حکم سے چلتی تھی) کے ظاہر الفاظ سے مترشح ہوتا ہے ، تو یہ اللہ کی قدرت سے بعید نہیں ہے۔ وہ اپنی مملکت کا آپ مالک ہے۔  اپنے جس بندے کو جواختیارات  چاہے دے سکتا ہے۔ جب وہ خود کسی کو کوئی اختیار دے تو ہمارا دِل دُکھنے کی کوئی وجہ نہیں۔