اس قصے میں قرآن مجید حضرت ایوب کو اِس شان سے پیش کرتا ہے کہ وہ صبر کی تصویر نظر آتے ہیں، اور پھر کہتا ہے کہ ان کی زندگی عبادت گزاروں کے لیے ایک نمونہ ہے ۔لیکن دوسری طرف بائیبل کی سِفرِ ایّوب پڑھیے تو وہاں آپ کو ایک ایسے شخص کی تصویر نظر آئے گی جو خدا کے خلاف مجسم شکایت ، اور اپنی مصیبت پر ہمہ تن فریاد بنا ہوا ہے۔ بار بار اُس کی زبان سے یہ فقرے ادا ہوتے ہیں”نابود ہو وہ دن جس میں میں پیدا ہوا“۔”میں رحم ہی میں کیوں نہ مر گیا“۔”میں نے پیٹ سے نکلتے ہی کیوں نہ جان دے دی“۔ اور بار بار وہ خدا کے خلاف شکایتیں کرتا ہے کہ” قادرِ مطلق کے تیر میرے اندر لگے ہوئے ہیں ، میری رُوح انہی کے زہر کو پی رہی ہے ، خدا کی ڈراؤنی باتیں میرے خلاف صف باندھے ہوئے ہیں“۔ ”اے بنی آدم کے ناظر، اگر میں نے گناہ کیا ہے تو تیرا کیا بگاڑتا ہوں؟ تُو نے کیوں مجھے اپنا نشانہ بنا لیا ہے یہاں تک کہ میں اپنے آپ پر بوجھ ہوں ؟ تُو میرا گناہ کیوں نہیں معافف کرتا اور میری بدکاری کیوں نہیں دُور کر دیتا “؟”میں خدا سے کہوں گا کہ مجھے ملزم نہ ٹھیرا، مجھے بتا کہ تُو مجھ سے کیوں جھگڑتا ہے ؟ کیا تجھے اچھا لگتا ہے کہ اندھیر کرے اور اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیز کو حقیر جانے اور شریروں کی مشورت کو روشن کرے“؟ اُس کے تین دوست اسے آکر تسلی دیتے ہیں اور اس کو صبر اور تسلیم و رضا کی تلقین کرتے ہیں ، مگر وہ نہیں مانتا۔ وہ ان کی تلقین کے جواب میں پے در پے خدا پر الزام رکھے چلا جاتا ہے اور ان کے سمجھانے کے باوجود اصرار کرتا ہے کہ خدا کے اِس فعل میں کوئی حکمت و مصلحت نہیں ہے، صرف ایک ظلم ہے جو مجھ جیسے ایک متقی و عبادت گزار آدمی پر کیا جا رہا ہے۔ وہ خدا کے اس انتظام پر سخت اعتراضات کرتا ہے کہ ایک طرف بدکار نوازے جاتے ہیں اور دوسری طرف نیکوکار ستائے جاتے ہیں۔ وہ ایک ایک کر کے اپنی نیکیاں گناتا ہے اور پھر وہ تکلیفیں بیان کرتا ہے جو ان کے بدلے میں خدا نے اس پر ڈالیں ، اور پھر کہتا ہے کہ خدا کےپاس اگر کوئی جواب ہے تو وہ مجھے بتائے کہ یہ سلوک میرے ساتھ کس قصور کی پاداش میں کیا گیا ہے ۔ اس کی یہ زبان درازی اپنے خالق کے مقابلے میں اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آخر کار اس کے دوست اس کی باتوں کا جواب دینا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ چپ ہوتے ہیں تو ایک چوتھا آدمی جو ان کی باتیں خاموش سُن رہا تھا بیچ میں دخل دیتا ہے اور ایوب کو بے تحاشا اس بات پر ڈانٹتا ہے کہ ”اس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھیرایا“۔ اس کی تقریر ختم نہیں ہوتی کہ بیچ میں اللہ میاں خود بول پڑتے ہیں اور پھر ان کے اور ایوب کے درمیان خوب دوبدو بحث ہوتی ہے ۔ اِس ساری داستان کو پڑھتے ہوئے کسی جگہ بھی ہم کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ہم اُس صبرِ مجسّم کا حال اور کلام پڑھ رہے ہیں جس کی تصویر عبادت گزاروں کے لیے سبق بنا کر قرآن نے پیش کی ہے۔ |