اس رکوع کو چھاپیں

سورة الانبیاء حاشیہ نمبر۸۹

حضرت آدم علیہ السّلام کے متعلق بھی یہ فرمایا گیا  ہے کہ  اِنِّیْ خَالِقٌ بَشَرًا مِّنْ طِیْنٍ، فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْ ا لَہٗ سَا جِدِیْنَ، ( ص۔ آیات ۷۱ – ۷۲) ” میں مٹی سے ایک بشر بنا رہا ہوں ، پس (اے فرشتو) جب میں اسے پورا بنا لوں اور اس میں اپنی روح سے پھونک دوں تو تم اس کے آگے سجدے میں گر جانا“۔  اور یہی بات حضرت عیسیٰ کے متعلق مختلف مقامات پر فرمائی گئی ہے۔ سورۂ نساء میں فرمایا   رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَا اِلیٰ مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ، (آیت ۱۷۱) ” اللہ کا رسول اور اس کا فرمان جو مریم کی طرف القا کیا گیا  اور اس کی طرف سے ایک روح“۔ اور سورہ ٔ تحریم میں ارشاد ہوا وَمَرْیَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا (آیت ۱۲)۔”اور عمران کی بیٹی مریم جس نے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کی پس پھونک دیا ہم نے اُس میں اپنی رُوح سے“۔ اس کے ساتھ یہ امر بھی  پیشِ نظر رہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت  عیسیٰ کی پیدائش اور حضرت آدم کی پیدائیش کو ایک دوسرے کے مشابہ قرار دیتا ہے ، چنانچہ سُورۂ آل عمران میں فرمایا   اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللّٰہِ کَمَثَلِ اٰدَ مَ ، خَلَقَہٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ ، (آیت ۵۹)۔ ” عیسیٰ کے مثال اللہ کے نزدیک آدم کی سی ہے جس کو اللہ نے مٹی سے بنایا پھر فرمایا” ہوجا“ اور وہ ہو جاتا ہے“۔ ان آیات پر غور کرنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ معمولی طریقۂ تخلیق کے بجائے جب اللہ تعالیٰ  کسی کو براہِ راست اپنے حکم سے وجود میں لا کر زندگی بخشتا ہے تو اس کو  ”اپنی روح سے پھونکنے“ کے الفاظ سے تعبیر فرماتا ہے۔ اس رُوح کی نسبت اللہ کی طرف غالبًا اس وجہ سے کی گئی ہے کہ اس کا پھونکا جانا معجزے کی غیر معمولی  شان رکھتا ہے ۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اوّل ، النساء ، حواشی ۲۱۲ – ۲۱۳۔