اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر١۲۵

یہ فقرہ قرآن مجید میں بالعموم شفاعت کے مشرکانہ عقیدے کی تردید کے لیے آیا کرتا ہے۔ لہٰذا اس مقام پر پچھلے فقرے کے بعد اسے  ارشاد فرمانے کا مطلب یہ ہوا کہ ملائکہ اور انبیاء و صلحاء کو بذابِ خود  حاجت روا اور مشکل کشا سمجھ کر نہ سہی، اللہ کے ہاں سفارشی سمجھ کر بھی اگر تم پوجتے ہو تو یہ غلط ہے۔ کیونکہ سب کچھ دیکھنے اور سُننے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ، ہر شخص کے ظاہر اور مخفی حالات وہی جانتا ہے، دنیا کے کھلے اور چھپے مصالح سے بھی وہی واقف ہے، ملائکہ اور انبیاء سمیت کسی مخلوق کو بھی ٹھیک معلوم نہیں ہے کہ کس وقت کیا کرنا مناسب ہے اورکیا مناسب نہیں ہے ، لہٰذا اللہ نے اپنی مقرب ترین مخلوق کو بھی یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ اس کے اذن کے بغیر جو سفارش چاہیں کر بیٹھیں اور ان کی سفارش قبول ہو جائے۔