اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر١۲۸

جہاد سے مراد محض ”قتال“(جنگ) نہیں ہے، بلکہ یہ لفظ جدوجہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش  کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدوجہد  مطلوب ہے۔ اس اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں، اور جدوجہد کا مقصُود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی  اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی  کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اوّلین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجاہدے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا    قد متم خیر مقدم من الجھاد الاصغر الی الجھاد الاکبر۔”تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگئے ہو“۔ عرض کیا گیا  وہ بڑا جہاد کیا ہے؟ فرمایا   مجاھدۃ العبد ھواہ۔”آدمی کی خود اپنی خواہشِ نفس کےخلاف جدوجہد“۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا و ہ حقِ جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے۔