اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر١۳١

اگرچہ اسلام کو مِلّت نوح، ملّتِ موسیٰ، ملّتِ عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملّتِ ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملّتِ ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کےاوّلین مخاطب اہلِ عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس  طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسُوخ و اثر رچا ہوا تھا  وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان ، مشرکینِ عرب ، اور شرق اوسط کے صابِئی، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملّتوں کی پیدائش سےپہلے گزرے ہیں۔ یہودیت، عیسائیت اور صابِئیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکینِ عرب ، تو وہ بھی  یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بُت پرستی کا رواج عَمرو بن  لُحَیّ  سے شروع ہوا جو بنی خُزاعہ کا سردار تھا اور مُآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اُس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ مِلّت  بھی حضرت ابراہیمؑ کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملّتوں کے بجائے مِلّت ابراہیم ؑ کو اختیار کرو ، تو وہ دراصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم ؑ برحق اور برسرِ ہدایت تھے  ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملّت اصل مِلّتِ حق ہے نہ کہ یہ بعد کی مِلّتیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اُسی مِلّت کی طرح ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اوّل، البقرہ، حواشی ۱۳۴ – ۱۳۵۔ آل عمران ، حواشی ۵۸ – ۷۹۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ ۱۲۰۔