اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر۲۲

اس آیت کی تفسیر میں بکثرت اختلافات ہوئے ہیں۔ مختلف مفسرین کے بیان کردہ مطالب کا خلاصہ یہ ہے:
(۱) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ چھت سے رسی باندھ کر خود کشی کر لے۔
(۲)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ کسی رسی کے ذریعے آسمان پر جانے اور مدد بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔
(۳)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر وحی کا  سلسلہ منقطع کر نے کی کوشش کر دیکھے۔
(۴)جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اُس کی (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی) مدد نہ کرے گا وہ آسمان پر جا کر اس کا رزق بند کرانے کی کوشش کر دیکھے۔
(۵) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا  وہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکائے اور خودکشی کر لے۔
(۶) جس کا یہ خیال ہو کہ اللہ اس کی (یعنی خود اس طرح کا خیال کرنے والے کی) مدد نہ کرے گا  وہ آسمان تک پہنچ کر مدد لانے کی کوشش کر دیکھے۔
ان میں سے پہلے چار مفہومات تو بالکل ہی سیاق و سباق سے غیر متعلق ہیں۔ اور آخری دو مفہوم اگرچہ سیاق و سباق سے قریب تر ہیں ، لیکن کلام کے ٹھیک مدّعا تک نہیں پہنچتے ۔ سلسلۂ تقریر کو نگاہ میں رکھا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ گمان کرنے والا شخص وہی ہے جو کنارے پر کھڑا ہو کر بندگی کرتا ہے، جب تک حالات اچھے رہتے ہیں مطمئن رہتا ہے ، اور جب کوئی آفت یا مصیبت آتی ہے، یا کسی ایسی حالت سے دوچار ہوتا ہے جو اسے ناگوار ہے ، تو خدا سے پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے۔ اس شخص کی یہ کیفیت کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ قضائے الہٰی پر راضی نہیں ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ قسمت کے بناؤ اور بگاڑ کے سررشتے اللہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ میں بھی ہیں، اور اللہ سے مایوس ہو کر دوسرے آستانوں سے امیدیں وابستہ کرتا ہے۔ اس بنا پر فرمایا جارہا ہے کہ کہ جس شخص کے یہ خیالات ہوں وہ اپنا سارا زور لگا کر دیکھ لے ، حتٰی کہ آگر آسمان کو پھاڑ کر تھِگلی لگا سکتا ہو تو یہ بھی کر کے دیکھ لے کہ آیا اس کی کوئی تدبیر تقدیر ِ الہٰی کے کسی ایسے فیصلے کو بدل سکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔ آسمان پر پہنچنے اور شگاف دینے سے مراد ہے وہ بڑی سے بڑی کوشش  جس کا انسان تصوّر کر سکتا ہو۔ ان الفاظ کا کوئی لفظی مفہوم مراد نہیں ہے۔