اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر۴۹

جانوروں سے مراد مویشی جانور ہیں ، یعنی اونٹ، گائے، بھیڑ ، بکری ، جیسا کہ سورۂ انعام آیات ۱۴۲ – ۱۴۴ میں بصراحت بیا ن ہو اہے۔
اُن پر اللہ کا نام لینے سے مراد اللہ کے نام پر اور اُس کا نام لے کر انہیں ذبح کرنا ہے ، جیسا کہ بعد کا فقرہ خود بتا رہا ہے ۔ قرآن مجید میں قربانی کے لیے بالعموم”جانور پر اللہ کا نام لینے“ کا استعارہ استعمال کیا گیا ہے، اور ہر جگہ اس سے مراد اللہ کے نام پر جانور کو ذبح کرنا ہی ہے۔ اس طرح گویا اس حقیقت پر متنبہ  کیا گیا ہے کہ اللہ کا نام لیے بغیر، یا اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر جانور ذبح کرنا کفار و مشرکین کا طریقہ ہے۔ مسلمان جب کبھی جانور کو ذبح کر ے گا اللہ کا نام لے کر کرے گا ، اور جب کبھی قربانی کرے گا اللہ کے لیے کرے گا۔
ایّام معلومات (چند مقرر دنوں) سے مراد  کون سے دن ہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ان سے مراد ذی الحجہ کے پہلے دس دن ہیں۔ ابن عباس ؓ ، حسن بصری، ابراہیم نخعی، قتادہ اور متعدد دوسرے صحابہ و تابعین سے  یہ قول منقول ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒ بھی اسی طرف گئے ہیں۔ امام  شافعیؒ اور امام احمدؒ کا بھی ایک قول اسی کی تائید میں ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد یوم النحر (یعنی ۱۰ ذی الحجہ) اور اس کے بعد کے تین دن ہیں۔ اس کی تائید میں ابنِ عباس ؓ، ابن عمر ؓ، ابراہیم نخعی، حسن اور عطاء  کے اقوال پیش کیے جاتے ہیں، اور امام شافعی ؒ و احمدؒ سے بھی ایک ایک قول اس کے حق میں منقول ہوا ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد تین دن ہیں،  یوم النحر اور دو دن اس کے بعد۔ اس کی تائید میں حضرات عمر ، علی، ابن عمر، ابن عباس، انس بن مالک، ابوہریرہ، سعید بن مُسَیَّب وار سعید بن جُبَیر رضی اللہ عنہم کے اقوال منقول ہوئے ہیں۔ فقہاء میں سے سُفیانؒ ثوری، امام مالکؒ، امام ابو یوسفؒ اور امام محمد ؒ نے یہی قول اختیار کیا ہے اور مذہب حنفی و مالکی میں اسی پر فتوٰی ہے۔ باقی کچھ شاذ اقوال بھی ہیں، مثلًا کسی نے یکم محرم تک قربانی کے ایام کو دراز کیا ہے،کسی نے صرف یوم النحر تک اسے محدود کر دیا ہے، اور کسی نے یوم النحر کے بعد صرف ایک دن مزید قربانی کا  مانا ہے۔ لیکن یہ کمزور اقوال ہیں جن کی دلیل مضبوط نہیں ہے۔