”بعض لوگوں نے اس ارشاد کا یہ مطلب لیا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں واجب ہیں، کیونکہ حکم بصیغۂ امر دیا گیا ہے۔ دوسرا گروہ اس طرف گیا ہے کہ کھانا مستحب ہے اور کھلانا واجب۔ یہ رائے امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کی ہے ۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں۔ کھانا اس لیے مستحب ہے کہ جاہلیت کے زمانے میں لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانا ممنوع سمجھتے تھے ، اور کھلانا اس لیے پسند یدہ کہ اس میں غریبوں کی امداد و اعانت ہے۔ یہ امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے۔ ابن جریر نے حسن بصری، عطاء، مجاہد اور ابراہیم نخعی کے یہ اقوال نقل کیے ہیں کہ فَکُلُوْ ا مِنْھَا میں صیغہْ امر کے استعمال سے کھانے کا وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ یہ امر ویسا ہی ہے جیسے فرمایا وَاِ ذَا حَلَلْتُمْ فَا صطَادُوْا ،” جب تم حالتِ اِحرام سے نکل آؤ تو پھر شکار کرو“۔(المائدہ۔ آیت ۲) اور فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلوٰ ۃُ فَانْتَشِرُوْ ا فِی الْاَرْضِ، ”پھر جب نماز ختم ہو جائے تو زمین میں پھیل جاؤ “(الجمعہ ۔ آیت ۱۰)۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ احرام سے نکل کر شکا ر کرنا اور نماز جمعہ کے بعد زمین میں پھیل جانا واجب ہے ۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ پھر ایسا کرنے میں کوئی چیز مانع نہیں ہے۔ اسی طرح یہاں بھی چونکہ لوگ اپنی قربانی کا گوشت خود کھانے کو ممنوع سمجھتے ہیں اس لیے فرمایا گیا کہ نہیں، اسے کھاؤ، یعنی اس کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔ |