اس رکوع کو چھاپیں

سورة الحج حاشیہ نمبر۵۸

”اگرچہ الفاظ عام ہیں، اور ان سے ہر جھوٹ، بہتان، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، مگر اس سلسلۂ کلام میں خاص طور پر اشارہ اُن باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیا دہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا  وہ سب بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی براہِ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے، جیسا کہ سورۂ نحل میں فرمایا   وَلَا نَقُوْلُوْ ا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ،  ”اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلا ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو“۔( آیت ۱۱۶)
اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا    عُدِلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہ، ”جھُوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے“،اور پھر آپؐ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف ؒ اور امام محمد ؒ کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اُ س کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمر ؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر ؓ نے فرمایا   یُضْرب ظھرہ و یحلق رأ سہ و یسخم و جھہ و یطال حبسہ، ”اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے“۔ عبداللہ بن عامر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہوگئی تو انہوں نے اس کو ایک دن برسرِ عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے ، اِسے پہچان لو، پھر اس کو قید  کردیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تشہیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے۔