”اگرچہ الفاظ عام ہیں، اور ان سے ہر جھوٹ، بہتان، اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے، مگر اس سلسلۂ کلام میں خاص طور پر اشارہ اُن باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفر و شرک کی بنیا دہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات ، صفات ، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی براہِ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکینِ عرب بَحِیرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے، جیسا کہ سورۂ نحل میں فرمایا وَلَا نَقُوْلُوْ ا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ، ”اور یہ جو تمہاری زبانیں جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلا ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو“۔( آیت ۱۱۶) |